ملائشیا میں منعقدہ حالیہ عام انتخابات کو ملک کی تاریخ میں تبدیلی کا ایک اہم نقطہ آغاز قرار دیا جارہا ہے۔ برطانیہ سے آزادی کے بعد پہلی مرتبہ ایک نئی جماعت حکمراں بن کر ابھری ہے اور گذشتہ کئی عشروں سے برسر اقتدار بیرسان نیشنل کو شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ یہ بالکل غیر متوقع طور پر ہوا ہے کیونکہ سابق حکمراں جماعت گذشتہ کئی عشروں سے تمام اختیار واقتدار کی مالک تھی اور اس نے پارلیمانی انتخابات میں اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لیے انتخابی حلقوں میں بھی اپنی رعایت سے رد وبدل کیا تھا۔ وہ انتخابی نتائج میں بھی الٹ پھیر کر سکتی تھی کیونکہ یہ نجیب رزاق ہی کی حکومت تھی۔ وہی جن پر ملائشیا کے ترقیاتی فنڈ میں خردبرد کے الزامات ہیں ۔ شاید یہ ملکی تاریخ میں حکومت کی کرپشن کی سب سے بڑی مثال ہے۔
لیکن بالآخر جمہوریت سرخرو رہی ہے اور یہ ایک ایسے ملک میں کامیاب ہوئی ہے جس کے بارے میں یہ فرض کیا جاتا ہے کہ وہاں حقیقی معنوں میں جمہوریت موجود نہیں تھی۔ پارلیمانی انتخابات میں سابق وزیراعظم مہاتیر محمد کی قیادت میں حزبِ اختلاف کے اتحاد پاکتان ہراپان نے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے۔ ابھی سب کچھ قوس قزاح اور خوش نما نہیں ہے۔ ملائشیا کے نئے منتخب ساتویں وزیراعظم مہاتیر محمد کی عمر 92 سال ہے۔ وہ ملک کے 1981ء سے 2003ء تک چوتھے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں ۔اُس وقت موجودہ شکست خوردہ بیرسان نیشنل کی قیادت ان ہی کے ہاتھ میں تھی۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے کرپشن کے خاتمے کے نام پر الیکشن لڑا ہے اور انھوں نے یہ انتخابی وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ جیل میں قید سابق نائب وزیراعظم اور سب سے مقبول سیاست دان انور ابراہیم کو رہا کر دیں گے اور اقتدار بھی ان کے حوالے کر دیں گے۔ انور ابراہیم 1990ء کی دہائی میں سابق حکمراں جماعت بیرسان کے دور میں ڈاکٹر مہاتیر کے نائب وزیراعظم رہے تھے۔ ( ایک شاہی فرمان کے ذریعے ان کی رہائی عمل میں آچکی ہے)
سابق سیاسی سانچے سے ناتا ٹوٹ گیا؟ یہ دراصل سابق سیاسی سانچے سے ملک کا ناتا توڑنے ہی کا کیس نہیں بلکہ اس انتخابی عمل میں سابق قائدین کو خوش آمدید کہا گیا ہے لیکن سابق حکمراں جماعت کو جمہوری انداز میں مسترد کر دیا گیا ہے۔ ملائشیا میں انتخابات کے نتائج پر خوشی کا اظہار کیا گیا ہے، بین الاقوامی پریس اور میڈیا میں اس کی مثبت کوریج کی گئی ہے اور یہ کوئی ایسی بلا جواز بھی نہیں تھی۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ خود ملائشین اور بین الاقوامی مبصرین کی جانب سے حقائق کو تسلیم کرنے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ سابق وزیراعظم نجیب رزاق کی قیادت میں ملائشیا کرپشن کا گڑھ بن چکا تھا۔ عام ملائشین ووٹروں نے غیر مبہم انداز میں ان کی حکومت کو مسترد کرنے کے لیے پولنگ مراکز پر اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے۔ انھوں نے حزبِ اختلاف کی مجموعی طور پر 20 فی صد سے زیادہ ووٹوں سے حمایت کا اظہار کیا اور نجیب رزاق کی قیادت میں اتحاد پر اس کو 14 فی صد سے زیادہ ووٹروں سے برتری دلا دی۔
ملائشیا کے نومنتخب لیڈر عمر رسیدہ ( اولڈ گارڈ) تو ہیں لیکن وہ ایک لحاظ سے بالکل واضح نئے مینڈیٹ کے ساتھ کرپشن کے استحصال کے لیے اس نئی جنگ میں’’ اولڈ گارڈ‘‘ ہیں کیونکہ بدعنوانیوں نے حالیہ برسوں کے دوران میں اس ملک میں ہر کہیں ڈیرے جما لیے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ مہاتیر محمد اور انور ابراہیم کا ریکارڈ نئے مینڈیٹ کے ساتھ کوئی عدم تسلسل والا نہیں ہے۔ انھوں نے ملائشیا کی اس وقت قیادت کی تھی جب 1980ء کے عشرے اور 1990ء کے عشرے کے اوائل میں وہ اپنی توانا معیشت کی بدولت ایک ایشین ٹائیگر بن گیا تھا۔اس کامیابی کے ثمرات کا تسلسل آج تک برقرار رہا ہے کیونکہ ملائشیا کو آج بھی جنوب مشرقی ایشیا کا سب سے پُرامن اور خوش حال بڑا ملک مانا جاتا ہے۔
پاکتان ہراپان کے یہ دونوں لیڈر ذاتی حیثیت میں کرپشن سے پاک رہے ہیں جبکہ بیرسان نیشنل میں شامل ان کے سابق بہت سے سیاسی ساتھی کرپشن سے آلودہ ہوگئے تھے۔ وہ دونوں نظم ونسق کے عشروں کے تجربے کے حامل ہیں۔ انھوں نے دو عشرے سے زیادہ عرصے تک ملائشین عوام کی خدمت کی اور ان کے ریکارڈ پر کہیں سیاہ دھبے نظر نہیں آتے ہیں۔ اس لیے اس تناظر میں 2018ء کے عام انتخابات کے نتائج ملائشیا کے لیے کوئی مکمل نقطہ آغاز نہیں بلکہ یہ عوام کے غیر متوقع مگر پُر اعتماد جمہوری انتخاب کا مظہر ہیں ۔عوام نے ماضی کے آزمودہ اور بااعتماد جوڑے کا ایک مرتبہ پھر انتخاب کیا ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر ان کے ملک کو درست خطوط پر استوار کرے۔ ان کی یہ توقع بے جا نہیں کہ نئی حکومت ڈلیور کرے گی۔ ملائشیا کا مستقبل تابناک نظر آرہا ہے اور یقینی طور پر انتخابی نتائج پر خوشیاں منانے کی یہی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔