پیغمبروں کی سرزمین فلسطین کے شہر غزہ کی سرحد پر ایک خونریز ترین دن تھا جب دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود مقبوضہ بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کے افتتاح کے موقع پر اسرائیلی فوج نے احتجاج کرنے والے ہزاروں نہتے فلسطینیوں پر توپ خانے اور ڈرون طیاروں سے اندھا دھند فائرنگ اور گولہ باری کر کے تین ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید اور زخمی کر دیا اور امریکہ اور اسرائیل نے اس وحشیانہ عمل کو ’’امن‘‘ کا پیغام قرار دیتے ہوئے فتح اور خوشی کے شادیانے بجائے۔ افتتاح کی تقریب مغربی طاقتوں کی جانب سے عالم اسلام میں اسرائیل کا خنجر گھونپنے کی 70ویں سالگرہ کے دن منعقد کی گئی جسے فلسطینیوں نے یوم سیاہ کے طور پر منایا۔
امریکہ کا صدر منتخب ہوتے ہی اسلامی ممالک کے خلاف انسانیت دشمن پابندیاں لگانے کا آغاز کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ سال جب تل ابیب سے امریکی سفارتخانہ القدس منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا تو اس کے مغربی اتحادیوں، یورپی یونین اور اسلامی ملکوں نے اس کی شدید مخالفت کی تھی لیکن امریکہ نے کسی کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے فیصلے پر عملدرآمد کر کے دم لیا۔ افتتاحی تقریب میں دنیا کے 86 ملکوں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی جن میں سے صرف ان چھوٹے چھوٹے 33 ممالک نے شریک ہونے کی بدنامی مول لی جو عملاً امریکہ کے حواری اور غلام بن کر رہ گئے ہیں۔
کوئی خود دار ملک اس تقریب میں شریک نہیں ہوا۔ روس، چین، برطانیہ، فرانس، پاکستان، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، مصر، اردن، ایران، لبنان، مراکش اور یورپی یونین سمیت دنیا کے تمام اہم ممالک نے فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلنے پر اسرائیل کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اب تک کی اطلاع کے مطابق اسرائیل کی بہیمانہ کارروائی میں عورتوں اور بچوں سمیت 60 افراد شہید اور تین ہزار کے قریب شدید زخمی ہو گئے۔ 8 کم سن بچوں کے علاوہ زیادہ تر شہدا کی عمریں 16 سے 35 سال کے درمیان بتائی گئی ہیں۔ فلسطین کے صدر محمود عباس نے فلسطینیوں کے قتل عام پر تین روزہ سوگ جبکہ حریت پسندوں کی تنظیم حماس نے اسرائیل کے خلاف انتفادہ تحریک دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ترکی اور جنوبی افریقہ نے امریکہ اور اسرائیل سے اپنے سفیر واپس بلا لئے ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے فلسطینیوں کے قتل عام میں امریکہ کو برابر کا شریک قرار دیا اور کہا کہ اس اقدام کا واضح مطلب یہ ہے کہ امریکہ اس تنازع میں ثالث کی حیثیت کھو بیٹھا ہے۔ صورت حال پر غور کرنے کے لئے سلامتی کونسل کا اجلاس بلا لیا گیا ہے جبکہ عرب لیگ کا بھی اجلاس ہو گا پاکستان، سعودی عرب اور ایران سمیت اسلامی ممالک نے فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے رہنے کے عہد کی تجدید کی ہے۔ فلسطین اور جموں و کشمیر کی آزادی اس وقت عالم اسلام کے دو سب سے بڑے مسائل ہیں اور دونوں کے عوام ایک طرف یہود اور دوسری طرف ہنود کے مظالم کا شکار ہیں۔
جموں و کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت میں اقوام متحدہ کی ایک سے زائد قراردادیں موجود ہیں جبکہ اقوام متحدہ نے جہاں اسرائیل کی ناجائز ریاست کو قبول کیا وہاں فلسطینیوں کے لئے بھی الگ مملکت کا حق تسلیم کیا تھا جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہی بنتا ہے مگر اسرائیل نے اس پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور تل ابیب سے اپنا دارالحکومت وہاں منتقل کرنا چاہتا ہے۔ اسی لئے دنیا بھر کے ملکوں پر دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ اپنے سفارتخانے القدس لے جائیں امریکہ نے سب سے پہلے اس کی خواہش پوری کر کے مسلم دشمنی کا کھلا ثبوت فراہم کیا ہے۔ عالم اسلام میں انتشار کی وجہ سے کشمیر اور فلسطین کے مسائل سات عشروں سے حل طلب ہیں اور بھارت اور اسرائیل کشمیریوں اور فلسطینیوں کا خون بہا رہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ اسلامی ممالک باہمی اختلافات ختم کر کے امت مسلمہ کے مفاد میں متحد ہو جائیں او آئی سی کو مضبوط بنائیں اور اس کے پلیٹ فارم سے امریکہ سمیت بڑی طاقتوں پر دبائو ڈال کر اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ان مسائل کو حل کرائیں۔