پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو ہر طرح کے وسائل سے مالا مال ہیں۔ آج کی دنیا میں آبادی بھی ان وسائل میں شامل ہے جو ترقی کی بنیاد بنتے ہیں۔ اس کی مثال اس وقت چین کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ جس نے گزشتہ ستر برس میں اپنی آبادی کو ترقی کے لیے بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ چین نے اپنے لوگوں کی تربیت کی، انہیں ایک ہجوم سے قوم بنایا اور اس قوم نے ترقی کے ایسے ایسے کارنامے رقم کیے کہ آج کا چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور سب سے بڑا زرمبادلہ کا حامل ملک ہے۔ چین میں رواں برس غربت کا مکمل خاتمہ ہونے کو ہے۔ ان سب سے بڑھ کر چین کو اپنے قیام کے بعد جس سب سے بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا، وہ کورونا وائرس کی وبا ہے۔ چین نے نہ صرف اس وبا پر خود قابو پایا بلکہ آج اس لڑائی میں دنیا کی مدد بھی کر رہا ہے۔ سوال پھر وہی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوا؟
میں چین کے دارالحکومت بیجنگ میں مقیم ہوں۔ یہ دسمبر 2019 کے آخری ہفتے کی بات ہے جب کورونا وائرس کی وبا منظر عام پر آئی۔ یہ کہاں سے شروع ہوئی؟ چینی حکومت نے اس کو روکنے کےلیے کیا اقدامات اختیار کیے؟ یہ تفصیلات آپ سب جانتے ہیں۔ چینی قوم نے وبا کے دوران اپنے نظام کی اطاعت کی ایسی مثالیں قائم کی ہیں کہ بڑی بڑی جمہوریتیں اور نام نہاد مہذب معاشرے بھی چینی قوم کے معترف ہو گئے ہیں۔ دوسری طرف میرے وطن میں ہر سنجیدہ مسئلے کی طرح وبا بھی ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ چینی قوم نے ووہان شہر سے لے کر پورے ملک میں آبادیوں کے قرنطینہ تک، ہر پابندی کو اپنے لیے فائدہ مند سمجھا اور حکومت کی جانب سے جاری کی جانے والی ہر ہدایت پر من وعن عمل کیا۔ ڈیڑھ ارب کی آبادی میں کوئی پریشانی کی لہر نہیں دوڑی۔ اجتماعات پر پابندیاں لگیں، جگہ جگہ لوگوں کا جسمانی درجہ حرارت اور شناخت چیک کی گئی۔
کہیں کسی نے اپنی ہتک محسوس نہیں کی۔ اس دوران ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے واقعات بھی سامنے نہیں آئے۔ اسکول بند ہوئے تو کروڑوں طلبا نے انٹرنیٹ پر تعلیم کا متبادل تلاش کر لیا۔ پارک بند ہوئے تو گھروں میں ورزش کو معمول بنا لیا۔ یہ ہے قوم۔ آج چین ایک قوم کی صورت میں اس وبا کو شکست دینے کے قریب ہے۔ اب کچھ ذکر کرتے ہیں اپنے وطن عزیز کا، جہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں۔ ہر کوئی اپنا اپنا راگ الاپ رہا ہے۔ پاکستانی حکومت نے تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کیا کیا سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہو گیا۔ ہر شخص اپنے اپنے انداز میں ردعمل کا اظہار کر رہا ہے۔ بہت سے لوگوں نے حکومت کی طرف سے جاری حکم نامے پر طنز و مزاح شروع کر دیا ہے۔ ایسی ایسی ویڈیوز پوسٹ ہورہی ہیں جن کو دیکھ کر شرم آتی ہے۔
کہیں کورونا زندہ باد کے نعرے لگائے جارہے ہیں تو کہیں کہا جارہا ہے کہ تعلیمی ادارے ایسے بند کر دیے ہیں جیسے وائرس چائنا سے پاکستان تعلیم حاصل کرنے آرہا ہے۔ کہیں کوئی کہہ رہا ہے چھٹیوں کے اعلان کے بعد بچے محفوظ مقام نانی اماں کے گھر شفٹ ہونے کےلیے تیار ہیں۔ کوئی راگنی سنا رہا ہے کہ تعلیمی ادارے بند، بازار اور دفتر کھلے، کیا وہاں کورونا نہیں پھیل سکتا؟ کوئی حکومت کو کوس رہا ہے کہ چھٹیوں کا اعلان کیوں کیاِ؟ جتنے منہ اتنی باتیں۔ ایک طرف حکومتی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ وہ کووڈ-19 کے تناظر میں نیشنل سیکیورٹی کونسل کا اجلاس طلب کرتی ہے تو دوسری طرف انتظامیہ کی سنجیدگی دیکھیں قرنطینہ مراکز پکنک پوائنٹ بنے ہوئے ہیں۔ نان، پکوڑے، دہے بھلے اور پان سگریٹ تک کے اسٹال لگا دیے گئے ہیں۔ ہمیں اب میچور ہونا ہو گا اور غیر سنجیدہ رویوں کو ترک کرنا ہو گا۔
صرف حکومت تنہا اس وبا کی روک تھام کےلیے کچھ نہیں کر سکتی۔ ہمیں بطور قوم اجتماعی شعور کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ یہ وائرس اللہ کا عذاب ہے، جو شامت اعمال کی صورت ساری دنیا پر مسلط ہو چکا ہے۔ لاکھوں افراد کو متاثر کر چکا ہے۔ کئی زندگیوں کو نگل چکا ہے۔ ہزاروں گھروں کو ویران کر چکا ہے۔ دنیا بھر کی معیشت پر اس کے نہایت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس کریش ہو چکی ہیں۔ ایئرپورٹس، شاپنگ مال اور عبادت گاہیں ویران ہو گئی ہیں۔ الحمدللہ پاکستان اب بھی اللہ کے فضل و کرم سے کورونا وائرس کووڈ-19 کے لحاظ سے محفوظ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ یہاں پر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی شرح سب سے کم ہے۔ پاکستان میں احتیاطی تدابیر کی فضا اس لیے قائم کی جارہی ہے تاکہ کسی بھی ناگہانی صورت حال سے بچا جاسکے۔ عالمی ادارہ صحت نے کووڈ-19 کو عالمی وبا قرار دے دیا ہے۔
پاکستان میں کچھ کیسز رپورٹ ہونے کے بعد بھی ہم نے بطور قوم سنجیدہ رویے کا مظاہرہ نہیں کیا۔ پی ایس ایل میچز ہو رہے تھے، بڑے بڑے اجتماعات جاری تھے۔ غیر ملکی میڈیا کی نظر میں بھی یہ سب کچھ آرہا تھا۔ ایسے میں اگر خدانخواستہ یہ مرض پھیل جاتا ہے تو پاکستان کو ایک غیر سنجیدہ اور غیر ذمے دار ملک قرار دے دیا جانا تھا۔ اس لیے وبا پر قابو پانے کےلیے حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کو سراہنے کی ضرورت ہے، نہ کہ طنزومزاح سے کام لیا جائے۔ ہمیں سنجیدگی سے ان ہدایات پر عمل کرنا ہو گا۔ ہم نے اپنی تاریخ میں بہت سے سانحات دیکھے ہیں۔ ہر حادثے کے بعد ہم کچھ دیر کےلیے قوم ضرور بنتے ہیں اور پھر اس کے بعد ہجوم بن جاتے ہیں۔ ہمارے پاس دین کی ہدایت موجود ہے، قران کی رہنمائی موجود ہے اور اللہ کی رحمت کا بے شمار نزول ہے۔ آئیے کسی نئے حادثے کے انتظار کے بغیر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اور تفرقے میں پڑے بغیر ایک قوم کی صورت اس وبا سمیت ہر چیلنج کا مقابلہ کیجئے۔