↧
چومسکی اور بعد از کورونا زندگی
نوم چومسکی کا شمار بیسویں اور اکیسویں صدی کے ان گنے چنے روشن خیال دانشوروں میں ہوتا ہے جن کے سیاسی ، سماجی و اقتصادی تجزیات و خطابات کو عالمی سطح پر ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ اگر جدید سرمایہ دارانہ نظام کے کھلائے گئے شگوفوں، سپر پاورز بالخصوص امریکا کے فیصلہ سازی کے ظاہری و باطنی نظام اور اس نظام کی ڈوریاں ہلانے والوں کو سمجھنا ہو۔ یا پھر یہ سمجھنا ہو کہ کلاسیکی اور جدید نوآبادیاتی دور نے تیسری دنیا کو کس طرح قیادتی و اقتصادی طور پر بانجھ کیا اور عالمگیریت ( گلوبلائزیشن) کے نام پر کیسے کیسے فطرت کی دودھیل گائے کا آخری قطرہ نچوڑ کر اسے اندھا دھند لالچ کے بینک اکاؤنٹس میں بھرنے اور پھر اس دولت سے مزید استحصال کے لیے ٹیکنالوجی کی مدد سے شکنجہ سازی ہو رہی ہے اور کس طرح عالمگیریت کے تابوت میں انسانی و قدرتی وسائل کو لٹا کر اس تابوت کو طفیلی کہاروں کے کندھے پر رکھ کے آخری جنازہ گاہ کی جانب لے جایا جا رہا ہے ؟
اکتیس دسمبر کو چین نے عالمی ادارہِ صحت کو ایک نامعلوم وائرس سے پھیلنے والے نمونیہ جیسے مرض کے بارے میں خبردار کیا۔ ایک ہفتے بعد کچھ چینی سائنسدانوں نے اسے کورونا وائرس کے طور پر شناخت کیا اور اس بارے میں انھیں جتنا بھی معلوم تھا متعلقہ ماہرین کو آگاہ کر دیا۔ لیکن جب چین سے باہر وائرولوجی کے ماہرین تک یہ تفصیل پہنچی تو کیا انھوں نے یا ان کی حکومتوں نے کوئی تدبیر سوچی ؟ چین کے علاوہ جنوبی کوریا، تائیوان اور سنگاپور نے کم از کم وائرس کے پہلے ہلے کو روکنے کے لیے احتیاطی اقدامات شروع کر دیے۔یورپ کو پہلے تو حالات کی سنگینی کا احساس نہ ہوا اور جب ہوا تو ہر کسی نے انفرادی طور پر جو مناسب سمجھا کرنا شروع کر دیا۔ جرمنی کو تیزی سے ادراک ہوا اور اس نے ہنگامی طور پر عمومی ٹیسٹنگ کی صلاحیت بڑھانا شروع کر دی۔مگر جرمنی نے ہمسائیہ ممالک سے تعاون اور معلومات کے تبادلے کے بجائے ان اقدامات کو خود تک محدود رکھا اور وائرس کو محصور کرنے میں بہت حد تک کامیاب بھی رہا۔
↧