پاکستان کے ڈاکٹر اور طبی عملے کے دوسرے ارکان جس بےجگری و جاں فشانی سے اپنے ہم وطنوں کو کورونا کی مہلک وبا سے بچانے کے لیے سرگرم عمل ہیں، اس کے ذریعے بلاشبہ انسانیت سے محبت اور ملک و قوم کی خاطر ایثار و قربانی کی لازوال تاریخ مرتب ہو رہی ہے۔ ملک میں کورونا کا پہلا مریض کم و بیش پونے دو ماہ قبل منظرِ عام پر آیا تھا ۔ کووِڈ انیس کے متاثرین میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے اسپتالوں میں طبی عملے کی مصروفیت بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ہمارے ڈاکٹر اور ان کے معاونین دن رات اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر اس متعدی مرض کا شکار ہو جانے والوں کی زندگیاں بچانے کی جدوجہد کر رہے ہیں جبکہ اس کے نتیجے میں ملک کے مختلف حصوں میں درجنوں ڈاکٹر اور طبی عملے کے دیگر ارکان وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔
تادمِ تحریر دستیاب معلومات کے مطابق سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں تقریباً 100 طبی کارکن کورونا وائرس کے متاثرین میں شامل ہیں۔ کراچی میں کورونا کے خلاف فرنٹ لائن پر جنگ لڑنے والے ڈاکٹروں سمیت طبی عملے کے پچیس سے زیادہ ارکان میں وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ دیگر مقامات میں طبی کارکنان کوروناکا ہدف بنے ہیں۔ اس صورت حال کی بنیادی وجہ طبی عملے کو ضروری حفاظتی سازوسامان کی فراہمی میں کوتاہی ہے جس کی شکایات حالیہ دنوں میں تواتر سے منظر عام پر آتی رہی ہیں۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے اسپتالوں میں طبی عملے کو فوری طور پر پرسنل پروٹیکٹیو ایکوئپمنٹس فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے جسے بلاتاخیر پورا کرنا متعلقہ حکام کی ناگزیر ذمہ داری ہے اور اس میں بے سبب کوتاہی بہرصورت مجرمانہ غفلت قرار پائے گی۔