Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

کرونا وائرس : نیویارک تباہی کے کنارے پر

$
0
0

نیو یارک میں بروکلین کے پُل سے نظارہ ہمیشہ کی طرح بہت حیرت انگیز ہے۔ حسبِ معمول ہر شے صبح کی روشن کرنوں میں نہائی نظر آتی ہے۔ ہر چیز ویسی ہی لگتی ہے جیسی کہ یہ ہونی چاہیے۔ میں اس وقت پُل کے اوپر اکیلی کھڑی ہوں اور اچانک میری نظر پولیس کانسٹیبل محمد پر پڑتی ہے۔ میں جانتی ہوں کہ وہ سٹی ہال سے تعلق رکھتا ہے۔ اب تک وہ پہلا چہرہ ہے جس پر میری نظر پڑی ہے اور ہم دونوں مسکرا کر ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔ وہ مجھ سے پوچھتا ہے کہ آپ کیسی ہیں؟ آپ کے اہلِ خانہ کیسے ہیں؟ جب آپ نیویارک میں رہتے ہیں تو 85 لاکھ لوگ ا ٓپ کے ہمسائے ہوتے ہیں۔ ہم ان کی زندگیاں بچانے کیلئے ہی اپنے چھوٹے چھوٹے اپارٹمنٹس میں ٹھہرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کی زندگیوں کو بچانے کیلئے بھی جنہیں ہم پیار کرتے ہیں۔ 

اس وقت نیویارک کے کیا حالات ہیں‘جہاں اس وقت دنیا بھر میں پائی جانے والی کورونا جیسی مہلک وبا کے کیسز کے 7 فیصد کیسز پائے جاتے ہیں؟ پراسرار اور مضطرب۔ سکول بند ہیں اور کچھ یہی حالات سٹورز کے ہیں۔ سب وے میں سفر کرنے والوں کی تعداد میں نوے فیصد کمی آچکی ہے۔ ڈاکٹرز کہہ رہے ہیں کہ ان کے ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز اور میڈیکل سپلائیز کی شدید کمی ہو رہی ہے۔ ہم روزانہ یہ سنتے ہیں کہ ہمارا فلاں جاننے والا شدید بیمار ہے۔ حال ہی میں مجھے یہ پڑھنے کا موقع ملا کہ میں نے جس کرسٹل کیڈٹ کا ایک ماہ قبل انٹرویو کیا تھا آج وہ زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے۔ بدھ کے دن مجھے پتہ چلا کہ میرے ایک بزرگ دوست جو میرے لیے ایک باپ کی طرح ہیں‘ کئی دنوں سے بیما رہیں۔ہم ہر روز ایک تشویش میں مبتلا رہتے ہیں۔

ہم سوچ کر پریشان ہوتے ہیں کہ کیا ہمارے ہمسائے اپنے گھر کا کرایہ ادا کر سکتے ہیں؟ ہم بہت جذباتی ہو جاتے ہیں۔ ہم ان کیلئے دعائیں بھی کرتے ہیں۔ ہم فیڈرل حکومت سے ایسی امداد کی توقع کر رہے ہوتے ہیں جو شاید ہمیں کبھی نہ مل سکے۔ میں نے پیدل چلنا شروع کر دیا ‘چلتی رہی اور پھر مزید چلتی رہی۔گزشتہ اتوار کو میں اپنے دوستوں کے ساتھ ناشتہ کرنے کی نیت سے بروکلین پل کے پار چلی گئی تاکہ ہم ایک دوسرے سے سماجی فاصلہ رکھتے ہوئے ناشتہ کر سکیں۔ پل کے دوسرے جانب مین ہیٹن کے علاقے میں مجھے ایک ایلیمنٹری سکول کے قریب سے گزرنے کا موقع ملا جو فریڈم ٹاور کے سائے میں واقع ہے ‘ اور میں ایسا کئی مرتبہ کر چکی ہوں۔ سکول کی طرف میں نے ایک تختی پر کچھ لکھا دیکھا جو کچھ یوں تھا کہ ’’ نائن الیون کے سانحے کے دن ہمارے پیارے بچوں نے انسانیت کا ایک خوبصورت ترین اور ایک بد ترین چہرہ دیکھا۔ 

ہم اپنے P.S.89 اورI.S.89 کے معزز پرنسپلز‘ ٹیچرز اور سٹاف کو انتہائی تکریم کی نظر سے دیکھتے ہیں جنہوں نے ہماری روحوں اور جسموں کو بچایا تھا ‘‘۔چند بلاکس کے فاصلے پر میں اور میری ایک دوست ایما ایک دوسرے سے چھ فٹ کا فاصلہ رکھتے ہوئے ایک ناشتے پر ملتے ہیں۔ ہم اپنے بازوئوں کو ہوا میں ہی لہراتے ہوئے ایک دوسرے کے گلے ملے۔ میں نے ایک کریم چیز کے ساتھ خمیری روٹی کا آرڈر دیا اور میری دوست نے ایک انڈے اور چیز کا‘ کیونکہ آخر کار ہم دونوں نیو یارکر ٹھہریں۔ نیو یارک میں جیسے جیسے دن گزر رہے ہیں خوف کی فضا کی شدت میں کمی آرہی ہے اور لوگوں کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کی مدد کرنے کیلئے جو کچھ کر سکتے ہیں بہترین انداز سے کر رہے ہیں۔

پورے شہر میں ہر سو ہاتھوں سے بنے سائن بورڈز‘ بجلی کے پولز پر لگے نظر آتے ہیں جن میں اجنبی لوگوں کو گروسری کی پیشکش کی گئی ہے جو لاک ڈائون کی وجہ سے اپنے گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے۔ بروکلین میں لگے ایک بورڈ پرمیں نے یہ لکھا دیکھا ہے ’’سوسن کال کر و یا ٹیکسٹ کرو ‘آپ کو کوئی نہ کوئی مدد کرنے والا مل ہی جائے گا‘‘۔ دوسرے لوگ رقوم جمع کر رہے ہیں جس سے بیروزگاروں کی مد د کی جائے گی۔ ہسپتال کے ورکرز کیلئے کھانے بھیجے جا رہے ہیں۔ کھانے کے آرڈر دینے والوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ سُوشی ریستوران کو بزنس جاری رکھنے میں مد د دینے کی کوشش کریں۔ تین مرتبہ گورنر رہنے والے قابلِ احترام اینڈریو کومو عزم اور حوصلے کا ایک نیا استعارہ بن کر ابھرے ہیں۔ وہ روزانہ پریس کانفرنس کر کے لوگوں کو اپنے اعصاب مضبوط رکھنے میں مدد دے رہے ہیں۔

جمعرات کو انہوں نے فیڈرل حکومت سے بھیک مانگنے کے بجائے نیویارک کو بیس ہزار وینٹی لیٹرز دینے کے لئے کہا ۔’’آپ نے صرف چار سو وینٹی لیٹرز بھیجے ہیں تو آپ خود ہی یہ فیصلہ کر لیں کہ کون سے 26000 امریکی شہریوں کو اپنی اپنی موت کیلئے تیار رہنا چاہیے‘‘۔ اینڈریو کومو بھی غلطیوں سے مبرا نہیں ہیں‘ مگر لوگوں کو یقین ہے کہ اس مشکل وقت میں ان کا انچارج ایک ایسا شخص ہے جو ہماری پروا کرتا ہے۔ حال ہی میں مجھے کھڑکی میں بیٹھ کر ایرک لارسن کی کتاب The Splendid and the Vile پڑھنے کا موقع ملا جو لندن پر حملے کے بارے میں ہے۔ محاصرے کی شام برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے قوم سے خطاب کیا اور کہا کہ قوم سے حالات کی سنگینی سے متعلق کوئی بات چھپانا حماقت ہو گی اور ایسے میں حوصلہ ہارنا اس سے بھی بڑی حماقت ہو گی۔ 

مجھے خیال آیا کہ نیویارک جیسے شہر کا حصہ ہونے کا کیا مفہوم ہو گا جو نائن الیون کے حملوں کو برداشت کر چکا ہے‘ مگر پھر بھی یہاں ایک بھرپور زندگی کی جھلک نظر آتی ہے اور جس میں دنیا بھر کے ہر کونے سے آئے لاکھوں لوگوں کی توانائیاں بھی شامل ہیں۔ ابھی چند روز پہلے مجھے سڑک کے پار ایک عمارت میں رہنے والے بچوں کے ساتھ فلیش لائٹ ٹیگ کھیلنے کا موقع ملا ۔ جب ہم گیم کھیل کھیل کر بری طرح تھک گئے تو ہم ایک دوسرے کو ہاتھ ہلاتے ہوئے خداحافط کہہ کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔

اس دوران میں نے کئی گز دور چار چھوٹے چھوٹے چہرے دیکھے جو ایک شیشے سے جھانک رہے تھے۔ ہم موسم بہار کے ابتدائی دنوں کے تپتے سورج میں اکثر ایک لمبی واک کیلئے نکل جاتے ہیں۔ چلتے ہوئے ہم اپنے ہمسایوں کو گزرنے کیلئے کافی جگہ دے رہے ہوتے ہیں۔ کھڑکیوں سے قوس و قزح کے رنگ نظر آتے ہیں اور ایک ایسے شہر کیلئے ایک بہت ہی خوشگوار تاثر پیدا کر رہے ہیں جس کو ان رنگوں کی اشد ضرورت بھی تھی۔ جلد وہ دن آجائے گا جب ہم سب ایک بار پھر مل کر اسی سب وے میں سفر کر رہے ہوں گے ‘ایک ہی سانس میں ہم ایک دوسرے کو برا بھلا بھی کہہ رہے ہوں گے اورایک دوسرے کو جگہ دینے کیلئے اس ہجوم میں کھڑے سکڑ بھی رہے ہوں گے۔

(بشکریہ : نیو یارک ٹائمز، انتخاب : دنیا ریسرچ سیل، مترجم : زاہد حسین رامے)  


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>