وزیراعظم عمران خان نے کورونا کے خلاف بے حد دل نشین بیان دیا ہے، انھوں نے کہا ہے کہ جذبہ ایمانی اور جوانوں کے ساتھ کورونا کو شکست دی جاسکتی ہے۔ قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے ٹائیگر فورس میں طلبہ، انجینئیرز، نوجوان ڈاکٹرز، مزدور اور مکینیکل سمیت ہر شعبہ زندگی کے لوگوں کو شمولیت کی دعوت دی اور عوام سے کہا کہ وہ اس وقت مدینہ کے انصار اور مہاجرین جیسے جذبے کا اظہار کریں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں اشیائے خوردونوش کی کوئی قلت نہیں، اگر اس وقت بھوک سے اموات ہوئیں تو ذمے دار ذخیرہ اندوز ہو نگے جنھیں نشان عبرت بنا دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ 8 ارب ڈالر کا ریلیف پیکیج دیا ہے، بزرگوں، بیماروں کو زیادہ خطرہ ہے، مریضوں کو مجرموں کی طرح نہ دیکھا جائے، اور ہر نزلہ، زکام، کھانسی پر اسپتال جانیکی ضرورت نہیں۔
بلاشبہ گائیڈ لائنز، ہدایات اور حقائق کے اظہار پر مشتمل وزیراعظم کی معروضات قابل غور ہیں، کورونا کے پھیلتے ہوئے ہولناک منظر نامہ کا ادراک جہاں ریاست وحکومت کی سطح پر ہونا چاہیے، ویسا ہی فیڈ بیک اور حقیقت پسندانہ رد عمل اپوزیشن سیاسی جماعتوں، عوام، سول سوسائٹی اور ہیلتھ سسٹم کی بنیادوں سے جڑی قومی فورس کیلیے بھی آنا چاہیے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹروں، نرسوں، پیرا میڈیکل اسٹاف اور دکھی انسانیت سے ہمدردی رکھنے والوں نے کورونا کے خلاف جنگ میں اپنا حصہ خوب ڈالا ہے، ان کی جانب سے مریضوں کے لیے ایثار، انسان دوستی اور انتھک محنت اور علاج معالجہ میں بے مثال تعاون اور قربانی کے لازوال جذبہ کا اظہار دیکھنے میں آیا ہے، مگر دنیا ابھی ختم نہیں ہوئی، بہت سی انسانی کوتاہیاں، خطائیں اور منافقتیں بے نقاب ہوئی ہیں، دنیا سازشی تھیوریز کا سیلاب امڈ آنے پر بے قرار ہے۔
کورونا کی سفاک حقیقت پر کسی کو شک نہیں مگر ماہرین، دانشور اور ڈاکٹر برادری کے بعض مضطرب حلقوں نے کورونا کی وبا کے اندر چھپی کچھ حقیقتوں کا ذکر پرنٹ اور سوشل میڈیا پر کیا اور بعض میڈیکل سائنس کے جرائد میں کورونا زیر بحث آیا ہے، مقصد صرف یہ واضح کرنا تھا کہ اس وائرس کے خاتمہ کے لیے ہنگامہ برپا کرنے کی ضرورت نہیں، اللہ نے وطن عزیز پر کرم کیا ہے، ابھی پاکستان میں ہلاکتوں کا گراف تشویشناک نہیں ہے جس میں ملکی مسیحاؤں حکومت اور دوست ملکوں بطور خاص چین کی مہربانی اور لازوال دوستی کام آئی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ 22 کروڑ اہل وطن کی معاشی، انسانی، سماجی مجبورویوں کا احساس بھی پیش نظر رکھا جائے۔
لاک ڈاؤن ضرور ہو، قانون نافذ کرنے والے ادارے پورے طریقے سے مستعد ہوں لیکن خلق خدا کو کورونا کی جنگ میں خوف، بے بسی، بھوک، بیروزگاری اور ریلیف کی عدم دستیابی کے ہاتھوں نیم جاں نہ کیا جائے، حکومت کے کثیر جہتی ریلیف پیکیجز بلاتاخیر مستحق لوگوں، غریبوں، دیہاڑی دار افرادی طاقت کی دہیلز تک پہنچنا شرط ہے، ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزرا ہے، نقد امداد، کھانے پینے کی اشیا اور دیگر سامان لوگوں کو جلد مل جانا چاہیے، ٹی وی چینلز پر سفید پوش خاندان، گداگر، مفلوک الحال مزدور برادری اور گھر میں قید افراد اور بچوں کو کورونا سے نجات کے لیے ہر وہ سہولت دی جانی چاہیے جو اس موذی وبا سے لڑتے ہوئے امداد کی شکل میں دی جاسکتی ہے، خوف سے پاکستانی عوام کو نجات ملنا بھی کورونا سے جنگ کی طرف پیش قدمی ہی ہے۔
عام لوگوں میں لاک ڈاؤن اور کرفیو کے ممکنہ نفاذ کے بارے میں بے چینی ہے اس کا سدباب ناگزیر ہے، ہر فیصلہ زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے کرنے کی ضرورت ہے۔ صحت عالم کو تاریخ ساز چیلنجز کے مقابل لاکھڑا کر کے کورونا وائرس نے کئی حقائق، تصورات، تضادات، نقصانات اور کوتاہیوں کو بے نقاب کیا ہے، جن نگاہوں نے کورونا کی آفرینش کو ابتدا سے دیکھا ہے ان کا کہنا ہے کہ جو چیزیں اب طے کی جارہی ہیں وہ پہلے ہو جانی چاہیے تھیں، 70 سال سے ملک میں ادارے نہیں بنائے، آج اس کے نتائج ساری قوم بھگت رہی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کورونا کی اصل صورتحال کا اعلان پانچ سے سات دنوں میں کر دیا جائیگا۔ بیماری سے سب کو نہیں بزرگوں اور بیماروں کو زیادہ خطرہ ہے، مریضوں کو مجرموں کی طرح نہیں دیکھنا چاہیے، ہر نزلہ، زکام، کھانسی والے کو اسپتال جانے کی ضرورت نہیں، تنہائی اختیار کر کے گھر پر بھی علاج کیا جاسکتا ہے۔
وزیراعظم نے کارخانوں کے مالکان سے کہا وہ مزدوروں کو ملازمتوں سے نہ نکالیں، انھیں سستے قرضے دیے جائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا دنیا کی پہلی فلاحی ریاست مدینہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے، نیشنل بینک میں وزیر اعظم کورونا ریلیف فنڈ قائم کر دیا گیا ہے، ضرورت مند شہری احساس پروگرام کے فیس بُک پیج پر خود کو رجسٹر کر کے بنیادی ضروریات حاصل کر سکتے ہیں، خیرات و صدقات دینے والے بھی اپنے آپ کو اس پیج پر رجسٹرڈ کرا سکتے ہیں۔ ریلیف کے کام کو باقاعدہ مربوط انداز میں آگے بڑھایا جائے گا۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ساری دنیا کورونا کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے، ہر ملک اپنی استعداد کے مطابق کوششیں کر رہا ہے۔ دیرینہ دوست چین یہ جنگ جیتنے میں کامیاب ہوا، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنے متاثرہ علاقے کے دو کروڑ لوگوں کولاک ڈاؤن کر دیا تھا۔
اگر پاکستان میں چین جیسے حالات ہوتے تو میں بھی سارے شہروں کو بند کر دیتا مگر پاکستان کی 25 فیصد آبادی شدید غربت، 20 فیصد غربت کی لکیر کے اردگرد زندگی گزار رہی ہے۔ لاک ڈاؤن سے 8 تا 9 کروڑ لوگوں کا مسئلہ بن جاتا ہے کہ ان کا دھیان کیسے رکھیں۔ بھارتی وزیراعظم کو قوم سے معافی مانگنی پڑ رہی ہے کیونکہ انھوں نے سوچے سمجھے بغیر لاک ڈاؤن کر دیا تھا۔ اب اگر بھارت لاک ڈاؤن ختم کرتا ہے تو کورونا پھیلنے کا خطرہ ہے۔ اگر لاک ڈاؤن برقرار رکھتا ہے تو لوگ بھوک سے مر جائیں گے، کورونا وائرس سے حکمت کے ساتھ نمٹنا ہے۔ اسلام آباد یا اس کے کسی پوش علاقے کو بند کرنے سے لاک ڈاؤن کامیاب نہیں ہوتا۔ اگر غریب علاقوں میں لوگ ملتے رہیں اور امیر علاقے محفوظ رہیں تو ایسا بھی ناممکن ہے۔
برطانوی وزیراعظم کی مثال سب کے سامنے ہے۔ وسائل سے یہ جنگ نہیں جیتی جا سکتی، ساری قوم کو مل کر یہ جنگ جیتنی ہے۔ ہم نے اپنی طاقت کے مطابق اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ ہم نے 8 ارب ڈالر جب کہ امریکا نے 2 ہزار ارب ڈالر کا ریلیف پیکیج دیا ہے۔ سب سے بڑی چیز ایمان اور دوسری طاقت ہمارے نوجوان ہیں ان دونوں طاقتوں کو استعمال کرتے ہوئے کورونا کے خلاف جنگ جیتیں گے۔ ٹائیگر فورس بند کیے جانے والے علاقوں میں بنیادی ضروریات پہنچائے گی، وزیراعظم ہاؤس میں مانیٹرنگ سیل قائم کر دیا ہے، جو کورونا کے پھیلاؤ کو مانیٹر کر رہا ہے۔ احساس پروگرام کے تحت ایک کروڑ 20 لاکھ افراد کو 12، 12 ہزار روپے فراہم کیے جائیں گے، ریلیف کے کام کو باقاعدہ مربوط انداز میں آگے بڑھایا جائے گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ احساس پروگرام کے تحت ریلیف فراہم کیا جا رہا ہے جس میں اضافہ بھی کیا جائے گا اور اس فنڈ کے ذریعے بھی ان کے لیے رقوم فراہم کی جائیں گی، فنڈ کا باقاعدہ آڈٹ ہو گا اور کوئی بھی اس کے بارے میں معلومات حاصل کر سکے گا۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 1200 ارب کے وزیراعظم ریلیف پیکیج کی خوش آیند منظور دی ہے، ریلیف کے تحت مزدوروں کے لیے 200 ارب، درآمدی شعبے اور صنعتوں کے لیے 100 ارب، بجلی، گیس بلوں میں ریلیف کیلیے 110 ارب مختص کیے گئے، ہنگامی فنڈ کے لیے 100 ارب، یوٹیلیٹی اسٹورز کے لیے 50 ارب، این ڈی ایم اے کو 25 ارب جاری کرنے کی منظوری دی جاچکی ہے جب کہ معیشت کا پہیہ جاری رکھنے کے لیے صنعتوں کی فہرست تیار کی جارہی ہے، گندم کٹائی سے وابستہ افراد کو نقل وحمل میں سہولت فراہم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے، ایک احسن فیصلہ یہ بھی ہوا جس کے تحت سندھ میں دودھ کی دکانیں رات 8 بجے تک کھلی رکھنے کی اجازت دی گئی۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل نے کہا کہ کورونا وائرس سے حفاظت کے لیے فرنٹ لائن پر مامور ڈاکٹرز، نرسوں اوردیگر پیرا میڈیکل اسٹاف کو ذاتی حفاظتی سامان فراہم کر دیا گیا ہے، این ڈی ایم اے میں ون ونڈو بھی کھولی گئی ہے، معاون خصوصی معید یوسف کے مطابق ٹرینیں اور ٹرانسپورٹ چلانے کا فیصلہ نہیں ہوا، وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے ریلوے سٹیشنوں پر قرنطینے کی سہولتوں کا اعلان کیا ہے۔ اسٹیٹ بینک نے صارف قرضوں کو ایک سال تک موخر کرنیکی چھوٹ دینے کا اعلان کیا ہے، سندھ حکومت نے نوٹیفکیشن جاری کیا کہ نجی ادارے ملازمین کو فوری طور پر تنخواہیں ادا کر دیں ، تنخواہوں کے معاملات کے لیے سندھ میں ہنگامی سیل قائم کر دیا ہے، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے پیش اماموں و دیگر کے خلاف ایف آئی آر واپس لینے کی ہدایت کر دی۔
ایک اطلاع کے مطابق ایشین ترقیاتی بینک ( ای ڈی پی) نے کورونا کے علاج کے لیے پاکستان کو 2 ملین ڈالر کی گرانٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ لاک ڈاؤن کے باعث پٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں 40 فی صد کمی کی اطلاع ہے، یاد رہے وفاقی حکومت نے یکم اپریل سے پٹرولیم مصنوعات کی امپورٹ بند کرنے اور خام تیل کی درآمد بھی معطل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسٹاک مارکیٹ میں بھی شدید اتار چڑھاؤ اور سرمایہ کاروں میں محتاط رویہ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ تجزیہ کاروں اور فہمیدہ حلقوں نے عندیہ دیا ہے کہ لاک ڈاؤن اور کرفیو کی بحث کو زمینی حقائق سے ہم آہنگ کرنے کا وقت ہے، عوام بے بسی کا شکار ہو رہے ہیں، بیروزگاری اور اشیائے خوردونوش کی قلت اور گھروں میں محصور ہونے پر عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے، وزیر اعظم اس ’’تنگ آمد ‘‘ پر اپنے خدشات پہلے سے ظاہر کر چکے ہیں، لہذا حکومت کے لیے سخت لاک ڈاؤن اور ہر طرح کی سماجی بندش کے درمیان ایک حقیقت پسندانہ توازن رکھنا ناگزیر ہو گیا ہے۔