پاکستان سمیت دنیا بھر میں لاک ڈائون کے تحت سخت حفاظتی اقدامات، پابندیوں اور احتیاطی تدابیر کے باوجود کورونا وائرس کے پھیلائو میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اب تک 206 ممالک اس مہلک مرض کی لپیٹ میں آچکے ہیں اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد 50 ہزار کی حد کو چھونے والی ہے۔ ان میں سے 30 ہزار کا تعلق صرف یورپ سے ہے۔ مریضوں کی تعداد ساڑھے 9 لاکھ سے بڑھ گئی ہے۔ اقوام متحدہ نے غریب ممالک کی مدد کیلئے عالمی فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عالمی معیشت پر کورونا کے طویل مدتی اثرات ہوں گے۔ تناسب کے اعتبار سے پاکستان میں صورتحال بظاہر زیادہ سنگین نہیں دکھائی دیتی۔
وزیراعظم عمران خان بھی کہہ رہے ہیں کہ کورونا وائرس مزید بڑھے گا لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس میں اضافہ کس شرح سے ہو گا۔ انہوں نے درست کہا کہ اگر احتیاط نہ کی گئی تو متاثرین کی تعداد 50 ہزار سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ بےیقینی کی اس کیفیت میں وفاقی حکومت نے صوبوں کی جانب سے نافذ کیے گئے ملک گیر لاک ڈائون کی مدت میں مزید دو ہفتے تک اضافے کا اعلان کیا ہے۔ جس کے بعد اس میں مزید سختی یا نرمی لانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ حکومت سندھ نے اپنے طور دوپہر 12 بجے سے 3 بجے تک پورے صوبے کو مکمل بند رکھنے کا حکم جاری کیا ہے اور اس پر عملدرآمد کے لیے پولیس کو خصوصی ہدایت کی ہے۔
بیرونِ ملک پھنسے ہوئے 2 ہزار اوور سیز پاکستانیوں کو لانے کے لیے پی آئی اے کی 17 پروازیں بحال کی گئی ہیں جبکہ وزیراعظم نے تعمیراتی صنعت کو کھولنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ مزدور طبقے کو روزگار مل سکے۔ حکومت پنجاب کی طرف سے گندم کی کٹائی میں سہولت کے لیے لاک ڈائون میں نرمی کے اعلان کے علاوہ دہاڑی دار مزدوروں کے لیے امدادی پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ڈاکٹر، نرسیں، دوسرا طبی عملہ اور فوج کے جوان نہایت دل جمعی سے کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے انتہائی قابلِ تحسین عملی کردار ادا کر رہے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشنل سینٹر میں ایک بریفنگ کے دوران جوانوں سے کہا ہے کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں مدد کے لیے ہر شہری تک پہنچیں۔
انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ہم نے بلاتفریق رنگ، نسل و مذہب ایک قوم بن کر اس وبا سے لڑنا ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں لوگوں کو کورونا وائرس کے برے معاشرتی و معاشی اثرات سے بچانے کے لیے دن رات کوشاں ہیں مگر یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے وسیع تناظر میں سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ ہمیں شاید توقع سے زیادہ عرصے تک اس وبا کے ساتھ رہنا ہو گا اس لیے اس سے بچائو کے روایتی اور غیر روایتی تمام طریقے اپنانا ہوں گے۔ لہٰذا جب تک اس کی ویکسین تیار نہ ہو جائے احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرنا چاہیے۔
ٹھنڈے ممالک میں گرم کپڑے اور بارش والے خطوں میں چھتریوں کا استعمال لوگوں کا معمول ہے اسی طرح کے طریقے کورونا کے خلاف بھی تلاش کیے جانے چاہئیں جو احتیاطی تدابیر پر مبنی ہوں۔ انسانوں میں قدرت نے مزاحمت کی قوت پیدا کی ہے، جب تک کورونا سے لڑائی جاری ہے یہ قوت ہماری حفاظت کرے گی۔ یقین رکھنا چاہیے کہ دنیا میں آنے والی دوسری آفات کی طرح اس وبا پر بھی جلد قابو پالیا جائے گا۔ ضرورت صرف احتیاطی اقدامات پر عمل کرنے کی ہے جنہیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔