اگرچہ فیڈرل ریزرو نے ہفتہ بھر ٹریژری بلز کے ریٹس میں کمی اور ان کی خریداری کے بعد اپنی پوزیشن کو مستحکم رکھنے کی کوشش کی‘ پھر بھی دنیا بھر کی مارکیٹس سوموار کو بری طرح گر گئیں۔ کورونا وائرس نے بارہ سال پہلے والے عالمی مالیاتی بحران کے برعکس عالمی معیشت کو ایک مختلف طریقے سے خطرات سے دوچار کر رکھا ہے۔ دنیا اب کئی دیگرطریقوں سے قرضوں کے بوجھ تلے دب چکی ہے ‘جو ماضی کے اس بڑے بحران سے بالکل مختلف ہے۔ مگر بڑے اور رسکی قرضے اب گھروں سے کسی اور طرف شفٹ ہو چکے ہیں اور امریکی بینکوں نے جنہیں ریگولیٹرز نے اس بحران کے بعد روک رکھا تھا اب دنیا بھر میں کارپوریشنز کا رخ کر لیا۔ چونکہ بزنس میں کیش فلوز میں اچانک کوئی رکاوٹ آسکتی ہے تو ایسی نئی کمپنیوں کو زیادہ خطرہ ہوتا ہے جو پہلے سے اپنے قرضے ادا کرنے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہی ہوتی ہیں۔
اس کلاس میں وہ Zombies کمپنیاں شامل ہوتی ہیں ‘جو بہت کم منافع کما رہی ہوتی ہیں تاکہ اپنے قرضوں کا سود ہی ادا کرنے کے قابل ہو جائیں‘ انہیں کاروبار جاری رکھنے کے لئے نئے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ ویران ائیر پورٹس ‘خالی ٹرینیں اور ریستورانوں میں کم گاہکوں نے پہلے ہی معاشی سرگرمیوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ کورونا کی وبا جتنی طویل ہو گی معیشت زبوں حالی کی شکار ہو کر اتنا ہی مالیاتی بحران کو جنم دے گی اور یہ زومبی کمپنیاں اسی طرح ڈیفالٹ ہونا شروع ہو جائیں گی جس طرح 2008ء میں سب پرائم مورٹ کیجز نے ڈیفالٹ کیا تھا۔ پچھلی پوری صدی میں دیکھا گیا ہے کہ طویل عرصے تک جاری رہنے والی بلند ترین شرح سود ہی کساد بازاری کی وجہ بنتی رہی نہ کہ کوئی وائرس۔ اس طرح کی وبا کی وجہ سے عالمی معیشت کو تین مہینے سے زیادہ بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
مگر اب صدی کی ایک ہی وبا نے عالمی معیشت کو برباد کر دیا ہے اور ریکارڈ لیول کے قرضے چڑھ گئے ہیں۔ دنیا بھر کے مرکزی بنک اس بات کے لئے تیار ہو رہے ہیں کہ کاروبار چلانے کے لئے کیش کی قلت 2008ء کی طرح ایک نیا مالیاتی بحران جنم دے سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فیڈرل ریزرو نے پورے زور و شور سے ایسے آسان اقداما ت اٹھائے ہیں‘ جن کے بارے میں 2008ء کے بحران کے وقت سوچنا بھی محا ل تھا۔ ابھی یہ بات واضح نہیں ہے کہ کیا فیڈرل کے اقدامات مارکیٹس میں خوف وہراس ختم کرنے کے لئے کافی ہیں مگر یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ مالیاتی سسٹم دوبارہ خود کو اتنے خطرے میں کیوں محسوس کر رہا ہے؟ 1980ء کی دہائی میں قرضے تیزی سے بڑھنا شروع ہو گئے کیوںکہ شرح سود بہت کم ہو گئی تھی اور مالیاتی ڈی ریگولیشن نے قرضے دینے کا عمل آسان کر دیا تھا۔
چنانچہ اس بحران میں عالمی قرضوں کا حجم عالمی معیشت کے سائز سے تین گنا زیادہ ہو گیا ۔ اس سال قرضے کافی کم ہو گئے‘ مگر ریکارڈ کم شرح سود نے جلد ہی قرضے لینے کے سلسلے کو پھر تیز کر دیا ۔ فیڈرل ریزرو نے ایسی آسان مالیاتی پالیسیاں وضع کیں تاکہ عالمی معیشتیں ترقی کریں اور اس بحران سے نکلنے کی تحریک پیدا ہو۔ مگر اس کے برعکس زیادہ تر رقوم مالیاتی معیشت میں چلی گئیں ‘جن میں سٹاکس ‘بانڈز ‘اور غیر منافع بخش کمپنیوں کو ملنے والے ارزاں کریڈٹ شامل تھے۔ جوں جوں معیشت پھیلتی رہی تو سال بہ سال قرضے دینے والوں نے ٹیکس بھی بڑھا دیئے اور مشکوک مالی ساکھ کی حامل کمپنیوں کو بھی سستے قرضے مل گئے۔ آج ایک بار پھرعالمی قرضوں کا بوجھ اپنی بلند ترین سطح پر ہے۔ امریکہ کے کارپوریٹ سیکٹر کا قرضوں کا بوجھ اسکی کل جی ڈی پی کے 75% کے برابر ہو چکا ہے ۔
صرف زومبی کمپنیاں ہی ہمارے لئے بڑی مشکلات کا باعث نہیں ہیں۔ 2008ء سے پبلک کمپنیوں پر نافذ ہونے والے ریگولیشنز سے بچنے کے لئے بہت سی کمپنیوں نے ایسے پرائیویٹ معاہدے کر لئے ہیں جن کی بدولت یہ کمپنیاں بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دب چکی ہیں۔ ایک پرائیویٹ ایکوئٹی فرم کی ملکیت ایک اوسط کمپنی اپنی سالانہ آمدنی کے چھ گنا کے برابر قرضوں میں پھنس چکی ہے۔ قرضوں کا یہ بوجھ اب ان کمپنیوں پر کئی گنا بڑھتا ہوا نظر آتا ہے جو کورونا وائرس سے براہ راست متاثر ہوئی ہیں جن میں ٹرانسپورٹ ‘ آٹو اور سب سے بدترین تیل کی صنعت شامل ہے۔ ایک طرف یہ خوف کہ کورونا وائر س کی وجہ سے تیل کی طلب بری طرح گر جائے گی اور دوسری جانب سپلائی میں اضافے نے تیل کی قیمتیں 35 ڈالرز فی بیرل تک گرا دی ہیں اور یہ اتنی کم قیمت ہے کہ بہت سی کمپنیوں کے لئے اپنے قرضے اور سود کی ادائیگی ناممکن ہو گئی ہے۔
اگرچہ سرمایہ کار ہمیشہ زیادہ منافع چاہتے ہیں تاکہ وہ مالیاتی طور پر غیرمستحکم کمپنیوں کے بانڈزخرید سکیں ۔ اب یہ امریکہ کے Junk Debt پر اتنی پریمیم کا مطالبہ کر رہی ہیں کہ وسط فروری سے اب تک یہ دوگنی ہو گئی ہے۔ اگرچہ دنیا نے کورونا وائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کساد بازاری تو ابھی دیکھنی ہے اب تو یہ ایک انوکھی عالمی وباء بن گئی ہے۔ جب کبھی مارکیٹ بیٹھتی ہے تو لاکھوں سرمایہ کار خود کو کم دولت مند سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے اخراجات کم کر دیتے ہیں۔ معیشت سست رفتار ہو جاتی ہے۔ بڑی کمپنیاں دولت کے ان منفی اثرات سے نہ بچ سکیں۔ 1980ء سے عالمی مالیاتی مارکیٹس (زیادہ تر سٹاکس ااور بانڈز) عالمی معیشت کے حجم سے چار گنا ہو گئیں جو 2008ء میں قائم ہونے والے بلند ترین ریکارڈ سے بھی اوپر تھا۔
وال سٹریٹ کے Bulls کو ابھی تک یہ امید ہے کہ بدترین صورت حال تیزی سے گزر سکتی ہے اور وہ چین میں ہونے ولی حوصلہ افزا پیش رفت کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ چین میں کورونا کے سب سے پہلے کیسز 31 دسمبر کو رپورٹ ہوئے تھے اور صرف سات ہفتے بعد 13 فروری کو وہاں سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ۔ ابتدائی دنوں کے نقصان کے بعد چینی سٹاک مارکیٹ دوبارہ اوپر جانا شروع ہو گئی اوراس کی معیشت بھی اسی ڈگر پر چلتی ہوئی دکھائی دی۔ مگر سوموار کے دن جاری ہونے والے ریٹیل سیلز اور فکسڈ سرمایہ کاری کے اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اس کوارٹر میں چینی معیشت سکڑنا شروع ہو گئی ہے۔اب‘ جبکہ چین کورونا وائرس کے عالمی پھیلائو کا مرکز نہیں رہا مگر وہاں پھر سے یہ خدشات پیدا ہونا شروع ہو گئے ہیں کہ یہ بحران دوبارہ چین کا رخ اختیار کر سکتا ہے جس سے ان کی ایکسپورٹس ڈیمانڈ کو شدید دھچکا لگے گا۔
پچھلے ایک عشرے میں چین کے کارپوریٹ قرضے چار گنا اضافے کے ساتھ 20 ٹریلین ڈالرز کی سطح تک پہنچ چکے ہیں جو دنیا میں سب سے زیادہ اضافہ ہے۔ آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ اس قرضے کا دسواں حصہ ان زومبی کمپنیوں نے لیا ہوا ہے جو اپنا کاروباری وجود بر قرار رکھنے کے لئے حکومتی ہدایات کے تحت ملنے والے قرضوں پر انحصار کرتی ہیں۔ امریکہ سمیت دنیا بھر میں پالیسی میکرز سے یہ مطالبہ بڑھ رہا ہے کہ وہ بھی نازک صورت حال سے گزرنے والے کارپوریٹ سیکٹر کو اسی نوعیت کی ریاستی سپورٹ مہیا کریں۔ اس بات سے قطع نظر کہ پالیسی میکرز کیا کرتے ہیں اب نتائج کورونا وائرس پر منحصر ہیں کہ اس کا پھیلائو کتنی جلدی سست پڑتا ہے‘ اگر کورونا نے اسی رفتار سے پھیلنا جاری رکھا تو غالب امکان یہی ہے کہ یہ زومبی کمپنیاں بھی اپنے انجام کو پہنچنا شروع ہو جائیں گی جس سے مارکیٹ میں مزید ڈیپریشن پیدا ہو گا اور یہ مزید مالیاتی اداروں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔