آزادی چاہیے...ضرور! لیکن کیسی آزادی؟ وہ جو مغرب میں میسر ہے؟ عورت ہو یا مرد‘ دوستی کریں، ایک ساتھ رہیں، جب ایک دوسرے سے اکتا جائیں تو دوست بدل لیں، کسی دوسرے کے ساتھ رہنا شروع کر دیں، بچے پیدا کریں، چاہیں تو شادی کریں، نہیں تو ویسے ہی ساتھ رہیں یا وہ بھی چھوڑ دیں۔ کسی دوسرے کو اس میں دخل دینے کی کوئی ضرورت نہیں، حتیٰ کہ باپ، ماں، بھائی، بہن کون ہوتے ہیں کہ ایسے معاملات میں مداخلت کریں۔ کوئی کیسا لباس پہنے اُس کی مرضی، جہاں مرضی جائے کسی دوسرے (جس میں ماں باپ، بہن بھائی بھی شامل ہیں) کا کیا تعلق! اختلاف اس بات پر نہیں کہ پاکستان میں عورتوں سمیت مختلف طبقات کو حقوق نہیں ملتے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ ہمارے ہاں کون سا ظلم و زیادتی ہے جو نہیں ہوتا۔ اگر عورتوں کا ذکر کریں تو عموماً اُنہیں وراثت کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے، حق مہر ادا نہیں کیا جاتا، اُن پر تشدد کیا جاتا ہے، شادی کے لیے اُن سے اُن کی رائے نہیں لی جاتی، اُنہیں جاہلانہ رسم و رواج کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔
ان تمام زیادتیوں کا ازالہ کیا جانا چاہیے لیکن ایسا گزشتہ 72 سالوں میں نہیں ہوا۔ اس کے لیے نہ صرف قانون سازی اور قوانین کے نفاذ کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے بلکہ معاشرے کے اُس مائنڈ سیٹ کو بدلنا بھی ضروری ہے جو ان زیادتیوں اور معاشرتی خرابیوں کا باعث بنتا ہے۔ اس خراب مائنڈ سیٹ کا علاج اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں معاشرے کی کردار سازی ہے تاکہ معاشرتی معاملات، رویوں اور اخلاقیات میں ہمارا عمل اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو۔ اب آتے ہیں آزادی کی طرف، چاہے یہ آزادی مرد کی ہو یا عورت کی، جھگڑا اصل میں یہی ہے کہ آزادی کیسی ہو؟ وہ جو مغرب نے دی یا جو اسلام کسی فرد چاہے مرد ہو یا عورت‘ اور معاشرے کو دیتا ہے۔ پاکستان میں ایک بہت چھوٹا لیکن بہت بااثر طبقہ ایسا ہے جو اُس آزادی کا قائل ہے جو مغرب کی میراث ہے اور جس کا میں نے کالم کے ابتدا میں ذکر کیا، اس طبقے کی کوشش ہے کہ پاکستان میں ایسا ہی کلچر عام کیا جائے۔ اس طبقے کی حمایت میں میڈیا کا ایک طاقتور حصہ بہت پیش پیش ہے۔
پاکستان کے نظریے کو دیکھیں یا آئین و قانون پر نظر دوڑائیں تو یہاں اُس آزادی کا تصور بھی ممکن نہیں جو مغرب سے مرعوب یہ طبقہ پاکستان پر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ یہاں معاشرے اور افراد کو چاہے وہ مرد ہوں یا عورتیں، وہی آزادی اور حقوق دیے جا سکتے ہیں جن کا تعین اسلام کرتا ہے۔ مغرب جو چاہے کرے لیکن نہ کسی مرد کو نہ ہی کسی عورت کو یہ آزادی دی جا سکتی ہے کہ بغیر شادی کے ساتھ رہیں، جس سے چاہے دوستی کریں، حرام طریقے سے بچے جنیں۔ مسلمان کے لیے چاہے وہ مرد ہو یا عورت، آزادی کی حدیں طے ہیں اور معاشرے اور معاشرتی تعلق کے لیے حرام و حلال اور شرم و حیا بنیاد کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ آج کا پاکستان بھی اسلام سے بہت دور ہے جس کی تربیت کی اشد ضرورت ہے لیکن جہاں یہ مغرب زدہ طبقہ ہمیں لے جانا چاہتا ہے اُس کے نتائج سے تو خود وہ پریشان ہیں جن کی اندھی تقلید میں ہمیں گھسیٹا جا رہا ہے۔
جو مغرب زدہ طبقہ پاکستان میں شرم و حیا کو ختم کر کے مغرب والی آزادی یہاں بڑے پُرکشش نعروں کے ساتھ مسلط کرنا چاہ رہا ہے اُس سے بہت سے معصوم اور ناپختہ ذہن اثر انداز ہو رہے ہیں جن کی رہنمائی کے لیے یہاں میں کچھ حقائق پیش کر رہا ہوں جو ثابت کرتے ہیں کہ آزادی کے نام پر عورت کا جو استحصال امریکہ جیسے ملک میں ہو رہا ہے اُس سے ہمیں سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ اُس کی اندھی تقلید۔ دسمبر 2019ء میں پیو ریسرچ سنٹر (PEW) کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ناجائز بچوں کی شرح سب سے زیادہ ہے، شادی کی شرح گھٹ گئی ہے اور بچے کسی ’’بندھن‘‘ کے بغیر پیدا ہو رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 18 سال یا اس سے کم عمر ایک چوتھائی بچے ’’سنگل پیرنٹ‘‘ (جو عموماً عورت ہی ہے) کے ساتھ رہتے ہیں یعنی عورت سے نہ صرف یہ کہ شادی نہیں کی بلکہ بچے بھی پیدا کر کے اُسی کے حوالے کر دیے کہ ان کے اخراجات کے لیے معاشی جدوجہد بھی وہ خود ہی کرے۔
اس سے بڑا استحصال عورت کا اور کیا ہو سکتا ہے؟ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکہ میں 35 سے 59 سال عمر تک کی عورتیں مردوں کے اس عمر کے گروپ سے زیادہ ہیں جو سنگل پیرنٹ کے طور پر رہتی ہیں، تقریباً ایک تہائی (32 فیصد) عورتیں جن کی عمریں 60 سال یا زائد ہیں، تنہا رہتی ہیں۔ کیا ایسی آزادی ہمیں چاہیے؟ چلیے ایک اور رپورٹ دیکھتے ہیں جو میڈیا کے اُس گھنائونے کردار کو آشکار کرتی ہے جس کا ذکر ہمارے ٹی وی چینلز نہیں کریں گے۔ یونیسیف (UNICEF) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 18 فیصد لڑکیوں نے بتایا کہ وہ 17سال کی عمر تک جنسی حملوں اور زیادتی کا نشانہ بن چکی ہوتی ہیں۔ خواتین اور لڑکیاں ہی کیوں اس زور زبردستی کا نشانہ بنتی ہیں، اس سوال پر رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس کا بدقسمتی سے کوئی ایک جواب نہیں ہے، تاہم جب خواتین اور لڑکیوں کو میڈیا کے ذریعے اس انداز میں دکھایا جائے جس سے جنسی جذبات اور خواہشات مشتعل ہوں تو عورتوں پر تشدد ہوتا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق میڈیا عورت کو جنسی انداز میں Object کے طور پر پیش کرتا ہے۔ امریکن سائیکلوجیکل ایسوسی ایشن کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ چہرے کے تاثرات، جسمانی ادائوں اور اشتہا انگیز لباس کے ذریعے اس طرح عورتوں کو دکھایا جاتا ہے کہ وہ جنسی طور پر تیار ہیں۔ پرنٹ میڈیا کے مطالعہ میں ویزلیان یونیورسٹی کے ریسرچرز کے مطابق 58 مختلف رسالوں میں 51.8 فیصد اشتہارات میں عورتوں کی نمائش جنسی شے کے طور پر کی گئی جبکہ مردوں کے رسالوں کے اشتہارات میں عورتوں کی 76 فیصد تشہیر یا نمائش Sex Object کے طور پر ہوتی ہے۔ یہ بھی ملاحظہ کریں، 2019 میں سنٹر فار امریکن پروگریس میں شائع رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں 1974 میں شادی شدہ جوڑوں اور ان کے گھرانوں کی تعداد 84 فیصد تھی۔ 2017 میں یہ تعداد گھٹ کر 66.4 فیصد رہ گئی۔ اس کے ساتھ ہی غیر شادی شدہ ماں یا باپ کی سربراہی میں خاندانوں کی شرح میں اضافہ ہوا۔
سنہ 1974 سے 2015 تک کے عرصہ میں صرف ماں کے ساتھ بچوں سمیت خاندانوں کی تعداد دُگنی ہو کر 14.6 سے 25.2 فیصد ہو گئی۔ 1976 میں صرف 56.3 فیصد شادی شدہ مائیں تنخواہ (پیسوں) کے لیے کام کرتی تھیں۔ 2017 میں یہ تعداد بڑھ کر 69.6 فیصد ہو گئی، بچے پالنے والی خواتین میں سفید فام کے مقابلے میں رنگدار خواتین کی تعداد زیادہ ہے جبکہ غیر شادی شدہ مائوں میں اکثریت سفید فام عورتوں کی ہے۔ 2016 میں امریکہ کے اندر 40 فیصد بچوں کی پیدائش غیر شادی مائوں کے ہاں ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق 2017 میں 41 فیصد مائیں اپنے خاندانوں کیلئے روزگار کا واحد ذریعہ ہیں۔ آگے چلیے! امریکہ میں خواتین کے استحصال کے حوالے سے واشنگٹن پوسٹ نے 15 اکتوبر 2019 کو رپورٹ دی کہ ایک چوتھائی انڈر گریجویٹ عورتوں (یعنی ہر چوتھی طالبہ) کا کہنا ہے کہ وہ جنسی طور پر ہراساں (جس میں زیادتی کے کیس بھی شامل ہیں) کی گئیں۔
یہ رپورٹ امریکہ کی 33 بڑی جامعات کے سروے پر مشتمل تھی۔ 2018 میں بلومبرگ میں شائع رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 40 فیصد بچے شادی کے بغیر پیدا ہوتے ہیں۔ یہ شرح 1970 میں دس فیصد تھی۔ مندرجہ بالا اعداد و شمار امریکہ کے اپنے اداروں کے ہیں اور ادارے بھی وہ جن کی کریڈیبلٹی ہے۔ یہ حقائق ثابت کرتے ہیں کہ مغرب کی نام نہاد آزادی نے اُس معاشرے کے خاندانی نظام اور شادی کے ادارے کو تباہ و برباد کرنے کیساتھ ساتھ عورت اور بچوں کو بدترین استحصال کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ ہمیں ایسے رستے پر نہیں چلنا جو ہم سے ہماری بچی کھچی شرم و حیا بھی چھین لے۔ حیا ختم تو پھر سمجھ لیں کہ سب کچھ ختم۔