Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

طالبان… ’’پراسرار بندوں‘‘ کی کہانی

$
0
0

جنیوا معاہدے کے تحت 15 فروری 1989ء کی طے شدہ تاریخ سے ایک روز قبل ہی آخری سوویت فوجی بھی افغانستان سے نکل گیا تھا‘ لیکن ابھی عشق کے امتحاں اور بھی تھے۔ کابل سمیت کچھ بڑے شہروں پر ماسکو کی کٹھ پتلی نجیب انتظامیہ ( اور اس کے جرنیلوں) کا تسلط برقرار تھا۔ جنیوا مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوئے تو جنرل ضیاء الحق سوویت انخلا کے ساتھ کابل میں ایک وسیع البنیاد (عبوری) حکومت کے قیام پر اصرار کر رہے تھے‘ لیکن وزیر اعظم جونیجو پر اپنی (سویلین ) اتھارٹی منوانے کی دھن سوار تھی۔ انہوں نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی (جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو بھی شریک ہوئیں) اور وسیع البنیاد حکومت کی شرط کے بغیر ہی جنیوا معاہدے پر دستخط کی ''منظوری‘‘ حاصل کر لی۔ ''افغان پالیسی‘‘ کے معمار صدر جنرل ضیاء الحق (اور ان کے عسکری رفقا) دانت پیس کر رہ گئے۔

سوویت انخلا کے بعد اب افغانستان کو ایک نئی خونی کشمکش کا سامنا تھا۔ جنرل ضیاء الحق (اور ان کے اہم رفقا) کی سانحہ بہاولپور میں اگلے جہاں رخصتی کے بعد‘ نومبر 1990ء کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کو اقتدار اس طرح منتقل ہوا کہ دفاعی اور خارجی امور ان کے دائرہ ٔ اختیار سے باہر تھے (ظاہر ہے‘ اس میں افغانستان کا معاملہ بھی تھا) اس دوران جلال آباد کا ''ایڈونچر‘‘ ناکام رہا ‘ گوریلا جنگ کی مہارت رکھنے والے افغان مجاہدین کو کھلے میدان میں جنگ کا تجربہ تھا ‘ نہ اس کے لیے ضروری سازوسامان ان کے پاس تھا؛ چنانچہ وہ میدانِ جنگ میں ہزاروں لاشیں چھوڑ کر پسپا ہو گئے (پیر صاحب پگارا اس پر ہمارے ویژنری جنرل کو طنزاً ''فاتح جلال آباد‘‘ کہا کرتے تھے)۔

نوازشریف کو اپنی پہلی حکومت میں افغان مسئلہ ورثے میں ملا تھا۔ اب صورتِ حال محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت سے مختلف تھی۔ افغان مجاہدین کی تمام جماعتوں کے اتفاق رائے کے ساتھ کابل میں (سب کے لیے قابلِ قبول) افغان حکومت ان کی ترجیح اوّل تھی۔ ان کی کوششیں اس حد تک رنگ لے آئیں کہ باہم برسرپیکار افغان مجاہدین ''پشاور معاہدے‘‘ پر متفق ہو گئے (23 اپریل 1992ئ)۔ ان میں گلبدین حکمت یار بھی تھے۔ لیکن پرامن افغانستان کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ 28 اپریل کو کابل میں دن بھر جشن کا سماں تھا لیکن شام کو حکمت یار اور احمدشاہ مسعود کے مجاہدین ایک دوسرے سے برسر پیکار تھے۔ صدارتی محل‘ ایئرپورٹ اور قلعہ بالا حصار پر قبضے کے لیے مجاہدین کے دونوں دھڑوں میں جھڑپیں جاری تھیں‘ طیاروں سے بمباری اس کے علاوہ تھی۔ 29 اپریل کو وزیر اعظم نوازشریف کابل پہنچ گئے۔ 

عبوری انتظامیہ کے صدر صبغت اللہ مجددی سے مذاکرات میں انہوں نے کابل میں اس صورت حال پراظہارِ تشویش کے ساتھ افغانستان کی تعمیر نو کے لیے 25 کروڑ روپے کا چیک پیش کیا اور اس کے علاوہ 50 ہزار ٹن گند م بھیجنے کا اعلان بھی ۔ 6 مارچ 1993ء کا معاہدہ اسلام آباد نوازشریف حکومت کی طرف سے افغانستان میں قیام امن کے لیے دوسری بھرپور کوشش تھی‘ جس میں برہان الدین ربانی کی صدارت اور حکمت یار کی وزارتِ عظمیٰ پر اتفاق کیا گیا۔ کابینہ میں تمام مجاہدین تنظیموں کی نمائندگی طے پائی۔ الیکشن کمیشن نے آٹھ ماہ کے اندر آئین ساز اسمبلی کے انتخابات کرانا تھے۔ آئین کی تیاری کے بعد 18 ماہ میں صدر اور پارلیمنٹ کا انتخاب ہونا تھا۔ نوازشریف نے تمام افغان رہنمائوں کے ساتھ پہلے ریاض اور پھر تہران کا رخ کیا (کہ سعودی عرب اورایران بھی افغانستان میں ''سٹیک ہولڈرز‘‘ تھے) اگلے ماہ نوازشریف حکومت کی برطرفی کے بعد معاہدہ اسلام آباد کا فالو اپ پر اسس بھی جاری نہ رہا۔

مجاہد تنظیمیں پھر باہم دست بہ گریباں تھیں۔ جہاد کے پرُجوش حامی بھی کہنے لگے تھے کہ اب یہ جہاد نہیں ‘ فساد ہے۔ ایسے میں افغانستان کی سرزمین پر ایک نیا عنصر اُبھر رہا تھا۔ اگست 1994ء میں ملا عمر کی قیادت میں 15 طالبان پر مشتمل ایک چھوٹا سا گروپ وجود میں آیا جس نے صرف تین ماہ بعد افغانستان کے دوسرے بڑے شہر قندھار میں اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا۔ پھر اس کی برق رفتار کامیابیوں نے ایک دنیا کو حیرت میں ڈال دیا‘ جو پہلی بار طالبان اور ملا عمر کے نام سے آشنا ہوئی تھی۔ یہ ''پراسرار بندے‘‘ کون تھے؟ ایک ملاقات میں ہم نے مولانا فضل الرحمن سے پوچھا :''کچھ طالبان کے بارے میں بتائیے۔ جنرل نصیر اللہ بابر ان کی تخلیق کا کریڈٹ خود لیتے ہیں اور بڑے فخر سے انہیں اپنا ''بے بی ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ مولانا سمیع الحق انہیں اپنا شاگرد قرار دیتے ہیں۔ بعض حلقے امریکن سی آئی اے اور اپنی آ ئی ایس آئی کا نام بھی لیتے ہیں‘‘۔ مولانا نے ہلکا سا قہقہہ لگایا اور گویا ہوئے:

''یہ نوجوان دراصل 14 سالہ جہاد افغانستان کے سپاہی تھے۔ یہ ابتدا میں ان نوجوانوں کی تنظیم تھی جو جہاد میں زخمی ہوئے۔ ان میں بیشتر کا تعلق قندھار سے تھا جہاں پروفیسر برہان الدین ربانی کی حکومت کی رسائی نہیں تھی؛ چنانچہ یہاں مختلف نوعیت کے جرائم اپنے انتہا کو پہنچ رہے تھے۔ چمن سے پاک افغان سرحد عبورکرنے کے بعد پہلا گائوں سپن بولدک ہے۔ یہاں سے قندھار تک 40/45 میل کے علاقے میں بلا مبالغہ ہر ایک سو قدم پر رہزن بیریئر لگائے ہر گزرنے والے قافلے کو لوٹنے کے لیے موجود ہوتے ۔ وہ مال ومتاع کے علاوہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو بھی چھین لیتے۔ سڑک کے گردوپیش مکانات کو انہوں نے فحاشی و بدکاری کے اڈوں میں تبدیل کر دیا تھا۔ انسانوں کے روپ میں ان درندوں کے لیے ہر غیر انسانی حرکت روا تھی۔

ان حالات میں بعض نوجوانوں کو یہ احساس بے چین کئے رکھتا کہ انہوں نے روسی فوجوں (اور ان کی کٹھ پتلی انتظامیہ) کے خلاف جہاد اس لیے تو نہیں کیا تھا کہ آزادی کے بعد یہ علاقے جرائم کے گڑھ بن جائیں۔ ان نوجوانوں نے علما سے فتویٰ حاصل کیا‘ جنہوں نے ازروئے شریعت اسے جائز قرار دیا کہ اگر حکمران عوام کے جان ومال اور عزت وآبرو کے تحفظ میں ناکام ہو جائیں تو مقامی آبادی اپنے طور پر منظم ہو کر جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے اور یہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا نہیں ہو گا۔ تب ان نوجوانوں کے کوئی لمبے چوڑے عزائم نہیں تھے۔ انہوں نے سپن بولدک اور قندھار کے درمیان جرائم پیشہ عناصر کے خلاف مؤثر کارروائیاں کر کے علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ انہوں نے بولدک میں مختلف جہادی تنظیموں کے دفاتر پر بھی قبضہ کر لیا‘ جہاں سے انہیں کافی اسلحہ ہاتھ لگا۔ یہ نوجوان دراصل انہی تنظیموں سے آئے تھے اور قیام امن میں ان کی ناکامی کے بعد ان سے باغی ہو گئے تھے۔

قندھار کے لوگوں نے امن وامان کے قیام پر سکھ کا سانس لیا اور ان کے لیے دیدہ ودل فرشِ راہ کر دیئے۔ بدامنی کے شکار دیگرعلاقوں کے لوگ بھی ان کا انتظار کرنے لگے۔ انہوں نے جدھر کا رخ کیا عوام نے ان کا خیر مقدم کیا‘ جس سے ان کے حوصلے بلند ہوتے چلے گئے۔ تھوڑے ہی عرصے میں قندھار کے علاوہ غزنی اور ہلمند وغیرہ کی ''سرکاری انتظامیہ‘‘ بھی رضا کارانہ طور پر ان کے حق میں دستبردار ہو گئی۔ پھر یہ ہوا کہ گلبدین حکمت یار نے طا لبان کے زیر کنٹرول علاقے پر حملہ کر دیا۔ حکمت یار کا خیال تھا کہ یہ ''لڑکے بالے‘‘ان کے مقابلے میں کہاں ٹھہر سکیں گے‘ لیکن ان کے اندازے غلط نکلے۔ طالبان نے کامیابی سے اپنا دفاع کرتے ہوئے حکمت یار کو پسپائی پر مجبور کر دیا۔ طالبان حکمت یار کی پسپا ہوتی''فوج‘‘ کے تعاقب میں پیش قدمی کرتے چلے گئے۔ وہ پہلے''میدان‘‘ تک پہنچے اور پھر ''چہار آسیاب‘‘ بھی جا پہنچے جو حکمت یار کا بہت اہم ہیڈ کوارٹر تھا۔ یہاں وہ ربانی حکومت کے مدمقابل جا کھڑے ہوئے تھے۔

''پاکستان کا طالبان سے رابطہ کب ہوا؟‘‘.

قندھار میں نوجوان ملا عمر کی زیر قیادت طالبان کا ظہور، ان کی برق رفتار فتوحات اور تھوڑے سے عرصے میں کابل میں ان کی حکومت کا قیام، ایک دلچسپ اور حیرت ناک کہانی تھی، جو مولانا فضل الرحمن سے اس انٹرویو کا بنیادی موضوع تھی (یہ انٹرویو ستمبر 1998 میں لاہور میں کیا گیا تھا)۔
''پاکستان کا طالبان سے رابطہ کب ہوا؟‘‘ پاکستان اپنے پڑوس میں ابھرتی ہوئی اس نئی قوت سے لا تعلق نہیں رہ سکتا تھا۔ پاکستان افغانستان کے راستے (سڑک اور ریلوے کے ذریعے) سوویت یونین (مرحوم) کے قبضے سے، آزاد وسطی ایشیا تک رسائی چاہتا تھا۔ طالبان ایک مؤثر قوت بننے لگے تو پاکستان نے انہیں سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ حکومت پاکستان کے الفاظ میں یہ ''سیاسی حمایت‘‘ تھی۔ وہ اس قوت سے لا تعلق نہیں رہ سکتی تھی جس نے پاکستان کی سرحد کے قریب مختلف (اور اہم) علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ پاکستان کی سپورٹ سے طالبان کے حوصلے مزید بلند ہو گئے۔ خانہ جنگی کے شکار افغان عوام کی طرف سے پذیرائی نے بھی ان کے سامنے ''امکانات‘‘ کے نئے دروازے کھول دیئے تھے؛ چنانچہ انہوں نے مختلف صوبوں کی انتظامیہ کے سامنے دو مطالبات پیش کئے:

(1) اقتدار ہمارے حوالے کر دو
(2) اپنا اسلحہ بھی سرنڈر کر دو۔

چہار آسیاب (گلبدین حکمت یار کے بہت اہم ہیڈ کوارٹر) پر قبضے کے بعد طالبان کابل کے سامنے جا کھڑے ہوئے تھے‘ لیکن احمد شاہ مسعود نے کابل سے دست بردار ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ تب طالبان نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے ہرات، نمروز اور فرح کے صوبوں کی طرف پیش قدمی شروع کی۔ اس مہم میں انہیں ہرات میں اصل جنگ کا سامنا کرنا پڑا‘ جس میں بالآخر وہ فتح مند ہوئے، اس کے بعد، ایک سال میں وہ جلال آباد پر قبضے میں بھی کامیاب ہو گئے۔ یہاں سے ان پر فتوحات کے نئے در وا ہونے لگے۔ یہیں سے وہ حکمت یار کے ہیڈ کوارٹر ''سروبی‘‘ پر قبضے میں کامیاب ہوئے، جس کے بعد انہوں نے کابل کے تمام راستے کاٹ دیئے، اب دارالحکومت ان کے محاصرے میں تھا۔ اگست 1996 میں احمد شاہ مسعود نے جنگ کے بغیر کابل چھوڑ دیا۔ ادھر صوبہ پغمان سے پروفیسر عبدالرب رسول سیاف بھی پسپا ہو گئے‘‘۔ ''اس سے پہلے قاضی حسین احمد صاحب نے پروفیسر ربانی اور احمد شاہ مسعود کے ساتھ حکمت یار کی صلح بھی تو کرا دی تھی جس کے بعد حکمت یار، احمد شاہ مسعود کے زیر قبضہ کابل میں پہلی بار بطور وزیر اعظم داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے‘‘۔

''انہوں نے اپنا وزن طالبان کے پلڑے میں ڈال دیا تھا۔ مولوی محمد یونس خالص، مولانا جلال الدین حقانی، مولوی محمد نبی محمدی اور مولوی ارسلان خان سمیت تمام جید علما کرام نے طالبان کی حمایت کا اعلان کر دیا تھا۔ طالبان اور علما ایک قوت بن گئے‘ جس کا بہت سا ''کریڈٹ‘‘ قاضی حسین احمد صاحب کو بھی جاتا ہے‘‘ (مولانا فضل الرحمن نے ہنستے ہوئے کہا)۔ اگلی بڑی جنگ مزار شریف پر ہوئی، جہاں طالبان نے پہلے مرحلے میں شکست کھائی۔ انہوں نے کوئی بہتر جنگی تدبیر اختیار نہیں کی تھی۔ انہیں مزار شریف میں داخل ہونے دیا گیا جو دراصل ان کے گھیرائو کی حکمت عملی تھی۔ جنرل مالک نے بد عہدی کی جس کے نتیجے میں طالبان کو سخت جانی نقصان اٹھانا پڑا (جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 5 ہزار کے قریب تھی) اڑھائی ہزار تو ایک ہی جگہ مارے گئے۔ 

بعد میں مزار شریف پر طالبان کے قبضے کے بعد یہاں کئی اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں، جن میں سینکڑوں طالبان کو دفن کیا گیا تھا۔ مزار شریف پر قبضے کے بعد تقریباً پورا افغانستان طالبان کے زیر نگیں آ گیا۔ بہت تھوڑا علاقہ احمد شاہ مسعود کے پاس رہ گیا تھا۔ (مولانا نے یہاں یہ یاد دہانی بھی کرائی کہ افغانستان میں سوویت یونین والے داخل ہوئے تو ان کے والد محترم، مفتی محمود صاحب نے سب سے پہلے جہاد کا فتویٰ دیا تھا۔ طالبان نے اس کی لاج رکھی) اس طویل انٹرویو میں، افغانستان (اور وسطی ایشیا) میں اپنے اپنے قومی مفادات کے حوالے سے پاک، ایران کشمکش پر بھی گفتگو ہوئی، لیکن یہ اس وقت ہمارا موضوع نہیں... طالبان اور ان کی تیز رفتار فتوحات کے حوالے سے بھی یہ مولانا کا اپنا نقطۂ نظر تھا۔ بعض ''باخبر‘‘ لوگ اس حوالے سے ہمارے دستِ غیب کی کار فرمائی اور نادیدہ قوتوں کی معجز نمائی کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ 

کابل پر طالبان کا قبضہ اگست 1996 (پاکستان میں محترمہ کے دوسرے دور) میں ہوا‘ لیکن طالبان کی ''اماراتِ اسلامی افغانستان‘‘ کو پاکستان نے نواز شریف کے (دوسرے) دور میں تسلیم کیا۔ دنیا میں صرف تین ممالک نے اسے تسلیم کیا تھا، دیگر دو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہیں۔ طالبان کے طرزِ حکومت سے اختلاف کے باوجود، ایک دنیا نے یہ حقیقت تسلیم کی کہ طالبان نے افغانستان کو امن دیا، وار لارڈز کا خاتمہ ہوا۔ مجاہد تنظیموں کی باہمی خون ریزی بھی اختتام کو پہنچی۔ یو این او کی رپورٹ کے مطابق افغانستان پوست کی کاشت سے مکمل طور پر پاک ہو گیا تھا۔ ''نائن الیون‘‘ کے بعد کیا ہوا؟ یہ ایک الگ المناک کہانی ہے۔ پاکستان میں تب جنرل پرویز مشرف مالک و مختار تھے۔ وہ کبھی طالبان کو پاکستان کی فرسٹ ڈیفنس لائن قرار دیا کرتے تھے۔ نائن الیون کے بعد واشنگٹن سے ایک ہی ٹیلی فون کال پر ڈھیر ہو گئے۔

باب وڈ ورڈز کی کتاب ''Bush At War‘‘ کے مطابق یہ صدر بش نہیں، امریکی وزیر خارجہ کولن پاول تھے، جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کو کال کی تھی۔ پاکستان کا کمانڈو صدر (خود اپنے بقول) کسی سے ''ڈرتا ورتا‘‘ نہیں تھا‘ لیکن اب ''پاکستان فرسٹ‘‘ کے اصول پر اس نے کولن پاول کے ساتوں مطالبات تسلیم کر لیے تھے۔ وائٹ ہائوس میں صدر بش کی زیر صدارت امریکہ کی نیشنل سکیورٹی کونسل کا اجلاس جاری تھا، جب کولن پاول سچوایشن ہال میں داخل ہوئے۔ اپنے کارنامے کا فخریہ اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا : معزز اراکینِ کونسل! صدر مشرف نے سارے مطالبات تسلیم کر لیے۔ صدر بش کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ انہوں نے حیرت اور مسرت سے معمور لہجے میں اپنے وزیر خارجہ سے کہا: گویا تم نے جو چاہا، پا لیا؟ ''دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ‘‘ میں یہ ''غیر مشروط اور لا محدود تعاون‘‘ (Unconditional and unlimited co-opration) امریکیوں کے لیے حیران کن تھا۔

دوسرے ملکوں سے معاملات کرتے ہوئے، سرمایہ دار امریکہ کا رویہ خالصتاً ''تاجرانہ‘‘ ہوتا ہے‘ لنڈے کے اس دکان دار کی مانند جو کسی چیز کی قیمت سو روپے بتاتا اور پھر مول تول کر کے اسے چالیس پچاس میں فروخت کر دیتا ہے۔ امریکیوں کا خیال تھا، جنرل مشرف سات میں سے دو، تین مطالبات مان لیں گے ، ایک دو سے انکار کر دیں گے، اور باقی ایک، دو کو کابینہ کی منظوری سے مشروط کر دیں گے۔ ''بش ایٹ وار‘‘ میں ایک اور واقعہ کا ذکر بھی ہے۔ جب نائن الیون ہوا، جنرل محمود واشنگٹن میں تھے۔ (12 اکتوبر 1999 کی کارروائی کے مردِ آہن، راولپنڈی کے کور کمانڈر اب آئی ایس آئی کے سربراہ تھے)۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کو ''پتھر کے زمانے میں دھکیل دینے‘‘ کی دھمکی، نائب صدر رچرڈ آرمٹیج نے انہی کو دی تھی۔ واللہ اعلم۔

رئوف طاہر

بشکریہ دنیا نیوز


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>