Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

ہم سب خلیل ہیں

$
0
0

آپ حقائق کو جھٹلا سکتے ہیں مگر تاریخ کو جھٹلانا ممکن نہیں۔ اور یہ تاریخ پر نقش ہے کہ کیسے اسلام نے ظہور کے بعد عرب کے معاشرے میں خواتین کو عزت دی اور حقوق بھی دیے۔ اس سادہ سی بات کو ایسے سمجھا جاسکتا ہے کہ عرب معاشرے میں محبوبہ سے علی الاعلان پیار کا اظہار کرنا تو بہادری سمجھا جاتا تھا (اسی خاطر عرب شاعری محبوبہ سے پیار کے اظہار سے بھری ہوئی ہے) مگر بیوی سے اظہار محبت عیب تھا۔ ایک مرتبہ حضور اکرمؐ سے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ آپ کو دنیا میں سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’عائشہ رضی اللہ عنہا سے‘‘۔ یہ سن کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین چونک گئے کہ عرب معاشرے کو جانتے ہوئے بھی آپؐ نے اتنا واضح جواب کیسے دے دیا۔ جس کے باعث حضرت عمروؓ نے دوبارہ استفسار کیا ’’یارسول اللہؐ ہمارا مطلب تھا کہ مردوں میں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’عائشہ کے والد (حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) سے‘‘۔ (بخاری شریف)

ایک اور جگہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ مسلمانوں میں کامل ایمان والا وہ ہے جس کا اخلاقی برتاؤ (سب کے ساتھ، اور خاص طور پر) بیوی کے ساتھ جس کا رویہ لطف و محبت کا ہو۔ (المستدرک، کتاب الایمان: حدیث 173) مجھے یقین ہے کہ اگر ہم یہ احادیث فریم کروا کر اپنے گھر کی دیواروں پر آویزاں کر دیں تو عورت و مرد کی بحث کے آدھے مسائل یہیں حل ہو جائیں گے۔ ماضی میں یقیناً ہمارے معاشرے میں عورت اور مرد کے درمیان ایک خلیج قائم تھی، جس کے بہت سے محرکات تھے۔ مگر وقت کے ساتھ تعلیم اور میڈیا نے ہمارے معاشرے کی اس خلیج کو کافی حد تک پُر کر دیا ہے۔ آج کی عورت کو معاشرے میں ان مسائل کا سامنا نہیں رہا جو ماضی میں خواتین کو ہوتا تھا۔

خواتین کے عالمی دن پر پچھلے سال بھی ’’عورت مارچ‘‘ کے نام سے ریلی کا انعقاد کیا گیا، جہاں اخلاق باختہ نعروں کی گونج نے پورے ملک میں بےچینی کی کیفیت پھیلا دی۔ اس بار بھی کچھ دنوں سے ’’عورت مارچ‘‘ پر تکرار مختلف ٹی وی چینلز پر جاری تھی، جس میں ہماری قوم دوبارہ تماشائی بن کر دو گروہوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ لیکن اب اس جنگ میں شدت اس دوران آئی جب ڈرامہ نویس خلیل الرحمٰن قمر اور تجزیہ کار ماروی سرمد کے درمیان سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا۔ یہ پہلی بار نہیں تھا کہ ماروی سرمد یا خلیل الرحمٰن قمر کا کسی میڈیا پرسن کے ساتھ تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا ہو۔ اس سے پہلے بھی یہ دونوں حضرات کئی میڈیا پرسنز اور سیاستدانوں پر اخلاق باختہ جملے کس چکے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں عام آدمی پریشان ہے اور سوچ رہا ہے کہ ہم من حیث القوم کیا پہلے ہی کم مسائل کا شکار تھے جن میں عورت مارچ نامی بیماری کا بھی اضافہ ہو چکا ہے۔

ہمیں مل کر اپنی ترجیحات طے کرنا ہوں گی کہ ہم اپنے معاشرے کو کس جانب لے کر جارہے ہیں؟ ہم معاشرہ ہیں یا کوئی ریوڑ، جسے جب چاہے کوئی ماروی سرمد یا خلیل الرحمٰن ہانک کر ایک جانب لے جائے؟ ہم کتنے دلچسپ لوگ ہیں کہ دو افراد کی لڑائی کو صنفی لڑائی بنا کر اپنے معاشرے کی چولیں ہلانا چاہ رہے ہیں۔ پورا دن اپنی ماں، بیوی، بیٹی اور بہن کےلیے کمانے اور ہر ایک سے گالیاں کھانے والے مرد کو ظلم کا استعارہ ثابت کر کے ہم معاشرے کو کس ڈگر پر لے کر جارہے ہیں۔ میں کھلے دل سے تسلیم کرتا ہوں کہ کئی جگہوں پر مرد عورتوں پر مظالم کی وجہ بھی ہوں گے، اور یقیناً معاشرے میں عورتوں کےلیے بہت سے نئے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں، لیکن ایک ہی لاٹھی سے پورے ریوڑ کو ہانک دینا کہاں کا انصاف ہے؟ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ چوری کے ڈر سے اپنی گاڑی کو تالا لگانے والا خود چور نہیں ہوتا۔ ہمارا معاشرہ گنے چنے مردوں کی درندگی کی وجہ سے اخلاق باختہ اور مذہب مخالف نعروں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

یہ کہاں کی انسانیت ہے کہ ایک گھریلو یا ورکنگ خاتون کا نام جوڑ کر (جس کا اس مارچ سے دور دور تک کوئی لینا دینا نہیں) اپنے فرسودہ نظریات کا پرچار کیا جائے۔ معاشروں میں پِسی عورت کو ایسے مارچ کی نہیں بلکہ قانونی اور سماجی امداد کی ضرورت ہے۔ یہاں ’’عورت مارچ‘‘ کے منتظمین سے قوم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ اگر وہ مغربی معاشرے کی پیروی کرتے ہوئے عورتوں کے حقوق کے لیے مارچ کرنا چاہتے ہیں تو یہ ان کا جمہوری حق ہے، جس سے کسی کو اختلاف ممکن نہیں۔ مگر کیا انہوں نے یہ مارچ نکالنے سے قبل ہوم ورک مکمل کیا ؟ کیا انہوں نے پسماندہ علاقوں میں پِسنے والی عورتوں کےلیے قانونی جنگ لڑی؟ انہوں نے وڈیروں کے ظلم سہنے والی کتنی عورتوں کی امداد کی؟ زینب جتنی کتنی بچیوں کے کیس میں قانونی مدد فراہم کی؟ کتنی غریب خواتین کو انہوں نے مفت کورسز کروا کر ہنرمند بنایا اور اپنے پاؤں پر کھڑا کیا؟ مغرب کی نقالی کرنی ہے تو پھر مکمل کی جائے۔ یہ ’آدھا تیتر آدھا بٹیر‘ والی پالیسی معاشرے کو انتشار میں دھکیلنے کے سوا کچھ نہیں۔

اگر آپ نے پچھلے ایک سال میں یہ سب ہوم ورک کیا ہوتا تو یقیناً آپ کے اس مارچ کو عوامی حمایت حاصل ہوتی۔ ہم کتنے عجیب لوگ ہیں کہ جدید معاشروں کی نقالی بھی ٹھیک طرح نہیں کر پاتے۔ لبرل بن کر ملا ازم کو تو للکارتے ہیں، مگر عملی اقدامات سے کتراتے دکھائی دیتے ہیں۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا کہ ہم ایسی قوم ہیں جو 21 ویں صدی کےلیے ذہنی طور پر تیار نہیں تھے، مگر ہمیں گھسیٹ کر اکیسویں صدی میں داخل کروا دیا گیا ہے۔ اب نہ ہم اکیسویں صدی کے رہے ہیں اور نہ بیسویں صدی کے۔ ہم ایک دن عورت کے نام کر دینے اور اچھے خاصے سنجیدہ موضوعات کو متنازع بنا دینے سے سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں عورت کے مسائل حل ہو گئے۔ ہماری سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان جیسے ملک میں مذہب پر بات کرنا انتہائی نازک مسئلہ ہے، اس کے باوجود عورت سے ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ جیسا متنازع نعرہ جڑوانا چاہتے ہیں۔

پچھلے چند دنوں سے جاری اس سارے معاملے سے ہمارے لبرل طبقے کو سبق سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ وگرنہ ہمارے معاشرے میں ہر ایک کو ’’ہم سب خلیل ہیں‘‘ کہتے دیر نہیں لگنی۔

محمد شاہ زیب صدیقی  

بشکریہ ایکسپریس نیوز


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>