انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے زوال پزیر ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لئے پاکستان کو 6 ارب ڈالر کا جو قرضہ دینے کی منظوری دی تھی اس کے اجرا کے لئے ایک جامع مالیاتی نظم و ضبط پر عملدرآمد کی شرط رکھی تھی جس کے معاشی عمل پر مثبت اثرات کی توقع بےجا نہیں تھی لیکن بعض عملی مسائل کے باعث ایسا لگتا ہے کہ اسے بروئے کار لانے کے لئے حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اُن میں ریونیو اہداف پورے کرنے کا مسئلہ سرفہرست ہے۔ چنانچہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے رواں مالی سال کے ریونیو ٹارگٹ میں مزید 300 ارب روپے کی کمی کی درخواست کی ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) پہلے ہی اصل ہدف پر نظر ثانی کرا چکا ہے جس کے بعد اسے 5238 ارب روپے کا ہدف پورا کرنا ہے لیکن اس نے اس سے بھی معذوری ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ وہ صرف 4700 روپے اکٹھے کر سکے گا۔
یہ معاملہ پاکستان کے 10 روزہ دورے پر آئے ہوئے آئی ایم ایف سٹاف مشن کے سامنے اٹھایا جا رہا ہے۔ مشن نے قرضے کے سلسلے میں مختلف وزارتوں اور محکموں کی سہ ماہی کارکردگی کا جائزہ لینا شروع کر دیا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کو 45 کروڑ ڈالر کی تیسری قسط جاری کی جائے گی۔ پاکستانی حکام سے مشن کی بات چیت میں توانائی اور ٹیکس اصلاحات سے متعلق معاملات بھی زیر غور آئیں گے۔ ریونیو ہدف پورا نہ ہونے کی بڑی وجہ درآمدات میں کمی کے باعث ٹیکسوں کی کم وصولی ہے۔ آئی ایم ایف مقررہ ہدف پورا کرنے پر مصر ہے لیکن ملک کے معاشی حالات اس کی راہ میں حائل ہیں۔ سب سے سنگین مسئلہ مہنگائی میں اضافہ ہے جو عام آدمی کی قوتِ خرید سے باہر ہو گئی ہے۔
وزارتِ خزانہ کے مطابق شدید موسمِ سرما کی وجہ سے پیداوار میں کمی اور سپلائی میں تعطل کے باعث سبزیوں سمیت فوڈ آئٹمز کی قیمتوں میں اضافہ ہوا پھر پام آئل، سویا بین آئل اور خام تیل کی بین الاقوامی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے ملک میں افراطِ زر میں اضافہ ہوا۔ تاہم زرعی شعبے کی بہتری، معاشی پالیسیوں میں استحکام وفاقی اور صوبائی سطح پر بھرپور مانیٹرنگ اور سازگار موسم کے باعث توقع ہے کہ مہنگائی کم ہو گی اور پیداوار میں بہتری آئے گی۔ حکومت نجکاری کے ذریعے بھی نان ٹیکس ریونیو میں کمی کو پورا کرنا چاہتی ہے۔ مختلف اشیا کی قیمتوں میں کمی اور افراطِ زر پر قابو پانے کے لئے بھی ٹھوس اقدامات کئے جارہے ہیں۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے خزانہ عبدالحفیظ شیخ کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر مستحکم ہوئی ہے دنیا بھر سے سرمایہ کاری آرہی ہے مہنگائی کنٹرول کرنے کے لئے گندم درآمد کی جا رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے تعاون سے احساس پروگرام فنڈ دگنا کر دیا ہے اور یوٹیلٹی اسٹورز پر غریبوں کے لئے 7 ارب کا پیکیج دیا جا رہا ہے ان تمام اقدامات کے نتیجے میں معیشت میں بہتری اور افراطِ زرمیں کمی آئے گی اور مہنگائی آہستہ آہستہ کم ہوتی جائے گی۔ حکومت کی یہ توقعات بجا ہیں اور امید ہے کہ معاشی صورتحال بہتر ہو گی تو دوسری مشکلات کے ساتھ ریونیو اہداف کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا لیکن فی الوقت زمینی حقائق ضرور پریشان کن ہیں۔
حکومت آئی ایم ایف کے دبائو پر یکم فروری سے گیس کے نرخوں میں 15 فیصد اضافہ کر رہی ہے جس سے صنعتوں کے علاوہ گھریلو صارفین بھی متاثر ہوں گے۔ معیشت کے لئے مالیاتی ڈسپلن ضروری ہے مگر ایسا بھی نہیں کہ لوگوں کے لئے آسانیوں کی بجائے مشکلات بڑھا دی جائیں۔ وزیراعظم اس صورتحال پر خود فکر مند ہیں اور معاشی ٹیم کے بار بار اجلاس بلا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کو بھی چاہئے کہ پاکستان کے عوام پر اتنا بوجھ نہ ڈالے جسے وہ برداشت نہ کر سکیں اسے اس پہلو کو سامنے رکھ کر مالیاتی فیصلے کرنا چاہئیں۔