چین کے صدر شی جن پنگ کا کہنا ہے کہ چین کو سنگین صورتحال کا سامنا ہے کیونکہ حکام کو وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے فوری ایکشن لینا پڑا جس کے نتیجے میں کم از کم سو افراد ہلاک ہو گئے۔ ڈان اخبار میں شائع فرانسیسی خبررساں ادارے 'اے ایف پی'کی رپورٹ کے مطابق دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں اس وقت کئی ہزار افراد اس بیماری کا شکار ہیں اور چین میں نئے قمری سال کی چھٹی کے موقع پر مزید سفری گزرگاہیں بند کر دی گئی ہیں۔ چین کی سرکاری ایجنسی زن ہوا کے مطابق شی جن پنگ نے کہا کہ 'نئے کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ سے سنگین صورتحال کا سامنا ہے، پارٹی سینٹرل کمیٹی کی مرکزی اور متحدہ قیادت کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔
چین میں کورونا وائرس کے مزید کیسز رپورٹ ہونے کے بعد انہوں نے کہا کہ جب تک ہمارے پاس مستقل اعتماد ہے، ایک ساتھ مل کر کام کریں گے، سائنسی روک تھام اور علاج اور اس حوالے سے پالیسیاں موجود ہیں ہم یقینی طور پر یہ جنگ جیتنے کے قابل ہوں گے۔ ووہان جو کورونا وائرس میں ہنگامی صورتحال کا مرکز ہے وہاں مریضوں کی مدد کے لیے 450 ملٹری میڈکس تعینات ہیں جہاں سمندری غذا اور زندہ جانوروں کی مارکیٹ کو وبا پھوٹنے کی وجہ قرار دیا جارہا ہے۔ گزشتہ روز جب انہیں جشن منانا چاہیے تھا اس وقت لوگ شہر کے ایک ہسپتال میں مایوس اور غم و غصے کا شکار تھے۔ ایک خاتون نے کہا کہ ڈاکٹر سے ملاقات کے لیے کم از کم 5 گھنٹے لگتے ہیں، اسی طرح ایک اور شخص نے بتایا کہ لوگوں کو 2 روز تک قطار میں کھڑا رہنا پڑا تھا۔
چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق ووہان کے حکام راتوں رات ایک دوسرا نیا ہسپتال قائم کریں گے جس میں ایک ہزار 3 سو نئے بستر ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکام نے پہلے ہی وبا سے نمٹنے کے لیے ایک نیا ہسپتال تعمیر کرنا شروع کر دیا ہے جو ایک ہفتے میں تیار ہو سکتا ہے۔ زن ہوا نے بتایا کہ ووہان میں قائم کیے جانے والے 2 نئے ہسپتال عارضی صحت مرکز جتنے ہوں گے جو 2003 میں بیجنگ میں سارس سے نمٹنے کے لیے قائم کیے گئے تھے جس کے نتیجے میں چین اور ہانگ کانگ میں 6 سو 50 لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔