آئی ایم ایف کی شرائطِ محبت، ہائے ہائے: بینکوں کا انٹرسٹ ریٹ سوا تیرہ فیصد، اجازت کے بغیر کسی اور سے لین دین نہیں یعنی دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی کا اجازت نامہ ضروری ہو گا۔ ڈالر کی دوشیزہ کے ریٹ سے بھی کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہو گی۔ تعلق کی شرائط خاصی سخت تھیں مگر ہم مجبوروں کو کہنا پڑا جن پر آزادی کی ناحق تہمت ہے کہ سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے۔ اِس وقت ہمیں تیسری قسط لینی ہے پھر چار حکم نامے جاری کیے ہیں۔ پہلاحکم: حکومت 30؍ جنوری تک پرائیویٹ پاور کمپنیوں کو پوری پیداواری صلاحیت کے مطابق چلانے کی پابند ہو گی۔ سالانہ کپسیٹی چارجز کا 25 فیصد بجلی بلوں میں شامل کیا جائے گا۔ گیس کی قیمت میں 21.4 فیصد اضافہ کیا جائے گا۔ دوسراحکم: حکومت 28 فروری تک اپنی آمدنی، اخراجات اور بچت پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی پابند ہو گی۔ تیسرا حکم : حکومت 31 مارچ تک اسٹیٹ بینک کو آئینی طور پر خود مختار کر دے گی۔ خسارے کے چکر میں نئے نوٹ نہیں چھاپے جا سکیں گے۔ چوتھا حکم : ایف اے ٹی ایف پلان پر عمل کرانے والے بین الاقوامی اداروں پر بینک سیکریسی قوانین لاگو نہیں ہوں گے۔
دنیا کے 189 ممالک آئی ایم ایف کی محبت میں گرفتار ہیں۔ ان میں سے کچھ عشاق ترقی یافتہ ہیں اور کچھ کاسہ بدست، جن کے دلوں میں صرف ترقی کی تمنا ہے۔ یہ دوشیزۂ زر اُن سب عشاق کی مالیاتی کارکردگی کی نگرانی فرماتی ہے۔ بدحال اور بحران زدگان کو قرضے اور تکنیکی معاونت فراہم کرتی ہے۔ بہر حال یہ طے شدہ بات ہے کہ پاکستان کا شمار اول الذکر میں نہیں ہوتا۔ ہم نے بھی مجبوراً اس محبت کی بیڑیاں پہن رکھی ہیں کہ کہیں اہلِ زر ہمارا دیوالیہ نہ نکال دیں۔ ہم اب تک کئی بار آئی ایم ایف سے قرض لے چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کے قرض دو طرح کے ہیں۔ ایک جنرل ریسورس اکائونٹ کے تحت قرضہ جات۔ یہ صرف امیر ممالک کو ملتے ہیں دوسرا، پی آر جی ٹی کے تحت قرض، یہ غریب ممالک کے لئے ہیں۔ ان کی شرح سود کم ہوتی ہے مگر اس کے باوجود دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ یہ قرض غریب ممالک کو معاشی طور پر مفلوج کر دیتے ہیں۔ شرائط کچھ ایسی ہوتی ہیں کہ ان قرضوں کی واپسی مشکل ہو جاتی ہے۔
جو شرائط نامہ قرض خواہوں کے ہاتھ میں تھمایا جاتا ہے اس میں بظاہر تو ایسے اقدامات کرنا ہوتے ہیں جو ملک کو معاشی طور پر مستحکم کریں مگر تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ یہ قرض وقتی سہارا ضرور بنتے ہیں مگر بعد میں شدید ترین بحرانوں میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا:
بے وقار آزادی، ہم غریب ملکوں کی تاج سر پہ رکھا ہے، بیڑیاں ہیں پاؤں میں
معشوقۂ زر کے پالیسی میکرز کی تشکیل کردہ پالیسیوں اور پروگراموں کی بیڑیاں پہنے بغیر کوئی اُس کی بزم میں نہیں جا سکتا۔ افسوس کہ ہر قسط کے ساتھ اُس طرف سے چند نئی تجاویز کے نام پر حکم نامے جاری ہوتے ہیں۔ جنہیں سسکتی اور بلکتی عوام کے قتل نامے کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ اِس روشنی سے تاریکیاں اور بڑھ جاتی ہیں۔ خوشحالی کے نام پر بدحالیوں کے پھاٹک کھل جاتے ہیں۔ وہی جو حضرت غالبؔ کے ساتھ ہوا تھا، وہی ہونے لگتا ہے اور ہم بھی غالبؔ ِخوش فہم کی طرح کہتے ہیں:
قرض کی پیتے ہیں مے لیکن سمجھتے ہیں کہ ہاں رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
اس وقت ہم ہندو بنیے کے سُود جیسے قرضے میں گردن گردن تک ڈوبے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ موجودہ حکومت کو اس بات کا پورا احساس ہے۔ عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد پوری کوشش کی کہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے مگر اُس کی زلفوں کے گرفتار اتنی آسانی سے کہاں اُس کے پیچوں سے نکل سکتے ہیں۔ کوئی رستہ نہ ملا تو اُسی ظالم کے پاس جانا پڑا۔ کچھ ایسی شرائط بھی ماننا پڑیں جو کا غذ پر تحریر نہیں کی جا سکتیں۔ پاکستان کے آئی ایم ایف سے مراسم خاصے پرانے ہیں۔ لین دین کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ ایک لمبی شبِ وصال ہے۔ مثلاً 1958 سے 1977 کے درمیان یہ وصل کی رات چند ساعتوں پر مشتمل تھی۔ 1980 سے 1995 کے دوران پاکستان آئی ایم ایف کے 7 پروگراموں سے جڑا رہا، ان قرضوں میں زیادہ تر کی واپسی کا دورانیہ ایک سے دو سال تھا۔ 1997 سے 2013 میں آئی ایم ایف سے 6.4 ملین کا قرض لیا گیا، 6 مختلف پروگراموں کے تحت ،ان پروگراموں کی میعاد تین سال تھی۔
ان میں زیادہ ترقرضے بیل آؤٹ پیکجز یا اسٹینڈ بائی معاہدے تھے۔ اس ہولناک وصال کی تاریخ بڑی لمبی ہے۔ اس کا ذکر پھر کسی وقت۔ اس وقت مسئلہ گلے میں پھنسی ہوئی ہڈی کا ہے جنہیں عرف عام میں شرائط کہا جاتا ہے کہ ڈالر کا ریٹ اور بڑھایا جائے۔ پٹرول، گیس، بجلی اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں 30 فیصد تک اضافہ کیا جائے۔ پی آئی اے اور اسٹیل ملز جیسے اداروں کی فوری طور پر پرائیویٹائزیشن کی جائے۔ ایف اے ٹی ایف کے تحت مزید کارروائیاں کی جائیں۔ مختلف اشیاء اور مختلف کاموں میں دی جانے والی سبسڈی ختم کی جائے۔ اگرچہ عمران خان نے کہا کہ دوہزار بیس خوشحالی کا سال ہے مگر آئی ایم ایف کے دامِ ہم رنگ زمین کو دیکھ کر لگتا نہیں کہ سورج کو نکلنے دیا جائے گا۔