Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

فخرو بھائی سے جڑیں یادیں

$
0
0

جنوری 2020ء دو حوالوں سے یاد رکھا جائے گا۔ ایک تو پاکستان کی پارلیمان میں تین بڑی سیاسی جماعتیں، ایک صفحہ پر نظر آئیں اور سروسز ایکٹ سے متعلق قوانین میں ترامیم بغیر کسی بحث و مباحثہ کے اتفاقِ رائے سے منظور کر لیں۔ اِس کیساتھ ہی یہ بحث بھی اختتام پذیر ہوئی کہ کون سلیکٹڈ ہے اور کون ووٹ کو عزت دیتا ہے۔ نئے انتخابات کا مطالبہ بھی دم توڑ گیا۔ دوسرا فخر الدین جی ابراہیم کی وفات، جو عہدہ رکھنے پر نہیں چھوڑنے پر فخر محسوس کرتے تھے۔ کچھ اُن سے جڑیں یادیں بیان کرنا چاہتا ہوں کیونکہ میرا اُن سے تعلق کوئی 35 سال پرانا تھا۔ یہ ایک ایسے شخص کی موت ہے جو آئین و قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا تھا، جس کی آج پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔

مجھے اپنے صحافتی کریئر میں جن لوگوں نے انتہائی متاثر کیا فخرو بھائی اُن میں سے ایک تھے۔ یہ لوگ کردار کے غازی تھے اور ساری زندگی اصول و نظریے پر رہے اور جو اب بھی حیات ہیں وہ آج بھی اِنہی اصولوں کی پاسداری کر رہے ہیں۔ فخرو بھائی جو ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد 92 سال کی عمر میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے، سول حکمرانی اور بالادستی پر یقین رکھتے تھے۔ بحیثیت وکیل اور جج اُنہوں نے مزدوروں اور سیاسی کارکنوں کے مقدمات مفت لڑے اور سندھ ہائیکورٹ کے جج کی حیثیت سے اُن کو ریلیف دیا۔ سینئر صحافی بچل لغاری نے بتایا کہ بھٹو صاحب کے زمانے میں جب اُن کو ڈیفنس پاکستان رولز (ڈی پی آر) کے تحت دو تین بار بند کیا گیا تو ضمانت فخرو بھائی نے دی۔

ایسی ہی بات پی پی پی کے مسرور احسن نے بتائی جب وہ NSF کے کارکن تھے اور DPR میں بند رہے۔ 1977ء کی تحریک کے حوالے سے ایک بار فخرو بھائی نے مجھے بتایا کہ تحریک اپنے زوروں پر تھی، اندرونِ خانہ مارشل لا کی تیاریاں ہو رہی تھیں، عدالتیں کراچی اور لاہور میں لگنے والے مارشل لا کو غیر قانونی قرار دے چکی تھیں۔ ’’کسی طریقے سے یہ جانے کی کوشش شروع ہو گئی کہ اگر ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا جائے تو عدلیہ کا کیا ردِعمل ہو گا۔ چاروں صوبائی چیف جسٹس صاحبان کے بارے میں معلومات لی گئیں تو پتا چلا سب قائم مقام گورنر بننے کو تیار ہیں‘‘۔ آخر نظریہ ضرورت اور PCO ایسے ہی نہیں 2007 تک آمروں کو قانونی سند دیتا رہا۔ فخرو بھائی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدلیہ کی تاریخ کا بدترین فیصلہ قرار دیتے۔ ’’کیسے ملک کے منتخب وزیراعظم کو پھانسی چڑھا دیا گیا صرف ایک آمر نے اپنی گردن بچانے کیلئے‘‘۔

سنہ 1981ء میں وہ سپریم کورٹ کے جونیئر جج تھے۔ ایک پورا کریئر سامنے تھا۔ انسان کا اصل امتحان ہوتا ہی اس وقت ہے جب اسے اختیار اور لالچ دونوں مل رہے ہوں اور اصول اور ضمیر گوارا نہ کرے۔ فخرو بھائی نے PCO کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا مگر وہ خود جسٹس دراب پٹیل کی قربانی کو بڑا سمجھتے تھے۔ ’’وہ حلف لے لیتا تو چیف جسٹس ہوتا، کمال کا شخص تھا‘‘۔
میری جسٹس پٹیل سے انکی وفات سے چند ماہ پہلے ملاقات ہوئی تھی،، جس پر کبھی ضرور لکھوں گا۔ 4 اگست 1990 کو بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت برطرف کی گئی تو فخرو بھائی سندھ کے گورنر تھے۔ سابق صدر غلام اسحاق خان نے بدنامہ زمانہ 58-2(b) کے تحت قومی اسمبلی معطل کر دی اور چاروں گورنروں کو ہدایت کی کہ صوبائی اسمبلیاں بھی معطل کر دیں۔ فخرو بھائی نے انکار کر دیا۔

بے نظیر بھٹو کے منع کرنے کے باوجود اُنہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ دفتری اوقات کے بعد نئے گورنر نے صوبائی اسمبلی کو ختم کرنے کا آرڈر جاری کیا۔ 2002ء میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنمائوں نے انہیں کراچی سے الیکشن لڑنے کی دعوت دی۔ ’’تحریک انصاف کے دوست اکثر آتے رہتے تھے اور اب بھی آتے ہیں‘‘۔ فخرو بھائی نے دو سال پہلے یہ بات بتائی۔ 2013ء کے الیکشن سے قبل سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار ان کے پاس گئے اور درخواست کی کہ ساری جماعتیں چیف الیکشن کمشنر کے نام کے حوالے سے صرف آپ کے نام پر متفق ہیں۔ This is not my cup of tea چوہدری صاحب نے زور دیا تو بولے مشورہ کرتا ہوں۔ کچھ دوستوں سے رائے لی، ایک دن صبح مجھے فون آیا۔ مظہر، فخرالدین بول رہا ہوں۔ مجھے پتا ہے تو جلدی اٹھنے والوں میں سے ہے، میں نے کہا جی، حکم کریں، بولے، کیا مشورہ ہے کیا میں یہ درخواست قبول کر لوں۔ 

میں نے پوری بات سننے کے بعد کہا ’’معاملات پیچیدہ ہیں مگر کچھ بہتر ہو سکتا ہے تو ضرور کوشش کریں چونکہ استعفیٰ ہمیشہ جیب میں ہوتا تھا تو چوہدری نثار سے کہا کہ میں الیکشن کے فوراً بعد مستعفی ہو جائوں گا۔ وہ اس عمر میں بھی الیکشن کمشن کے دفتر 9 بجے پہنچ جاتے تھے۔ 18ویں ترمیم کے بعد چیف الیکشن کمشنر کی ویٹو پاور ختم کر دی گئی۔ حامد میر صاحب نے درست لکھا ہے کہ ان پر سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کا دبائو تھا۔ ایک مرتبہ کہا ’’یار، یہ غیر ضروری دبائو ڈال رہا ہے۔ سوچتا ہوں احتجاج کروں‘‘۔ شریف آدمی تھے اور ڈر تھا الیکشن ملتوی نہ ہو جائیں۔ اُنہوں نے پہلی بار جماعتوں اور امیدواروں کو مہم کے اخراجات کے حوالے سے الگ بینک اکائونٹ کھلوانے اور اخراجات کا حساب دینے کی ہدایت کی مگر پھر بھی الیکشن متنازع ہی رہے جس پر وہ خاصے مایوس تھے۔

مظہر عباس

بشکریہ روزنامہ جنگ


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>