سنہ 2015 میں چھ ممالک نے ایران کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے لیے ایک مشترکہ جامع ایکشن پلان مرتب کیا تھا۔ جس کے تحت تہران نے بین الاقوامی انسپکٹرز کو ملک میں دورہ کرنے کی اجازت اور اپنی جوہری سرگرمیاں محدود کرنے ہر رضامندی ظاہر کی تھی۔ اس معاہدے کے تحت ایران کو ہلکے معیار کی یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت تھی جو کہ تین سے چار فیصد تک ارتکاز کے لیول پر افزودہ کی جا سکتی ہے۔ اس کو جوہری بجلی گھروں میں بطور ایندھن استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ایران پر یہ بھی پابندی تھی کہ وہ 300 کلو گرام سے زیادہ افزودہ یورینیم کا ذخیرہ نہیں کر سکتا۔
امریکہ کی جانب سے اس معاہدے سے دستبرداری کے بعد جون 2019 میں ایران نے معاہدے میں مقرر کی گئی کم افزودہ یورینیم کی مقررہ حد سے زیادہ یورینیم ذخیرہ کر لی تھی جبکہ ستمبر 2019 میں ایران نے معاہدے کے تحت جوہری تحقیق اور ترقی کے وعدے سے دستبردار ہوتے ہوئے یورینیم افزودگی کے لیے سینٹری فیوجز تیار کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس معاہدے کو مکمل ختم ہونے سے بچانے کے لیے دوسرے فریقین بشمول برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس نے کافی کوششیں کی ہیں۔ امریکہ کی جانب سے عائد کردہ شدید معاشی پابندیوں کے باعث ایران میں معاشی بدحالی بڑھی ہے، ایرانی کرنسی کی قیمت انتہائی کم ترین سطح پر ہے جبکہ افراط زر نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔