امریکی حکام نے 18 سالہ افغان جنگ کے بارے میں عوام سے حقائق چھپانے کا انکشاف کیا ہے۔ امریکی اخبار ’’ واشنگٹن پوسٹ ‘‘ نے افغان جنگ کے حوالے سے خفیہ دستاویزات شایع کی ہیں جن میں امریکی فوجی افسروں اور اہلکاروں کے انٹرویوز شامل ہیں جن میں تقریباً سبھی کا کہنا ہے کہ اس جنگ کے بارے میں وہ ہمیشہ سچ کو چھپا کر یہ اعلانات کرتے رہے کہ وہ جنگ جیت رہے ہیں۔ دو ہزار صفحات پر مشتمل ان خفیہ دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ اس جنگ پر ایک ٹریلین امریکی ڈالر خرچ ہوئے، خواتین سمیت 2300 فوجی ہلاک، 20 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ اخبار نے اس جنگ کے بار ے میں معلومات جنگی اخراجات اور نا اہلی کا محاسبہ کرنے والے سرکاری ادارے ’’ اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ری کنسٹرکشن ‘‘ سے لی ہیں۔
افغان جنگ کے حوالے سے امریکی اعترافات چشم کشا بھی ہیں اور ان میں خطے کے سیاسی ، معاشی، سماجی اور تزویراتی ڈائنامکس میں ایک بڑی تبدیلی کا عندیہ بھی مضمر ہے۔ امریکی جنگی ماہرین اور سیاسی حکام کے اعترافات میں صاف نظر آتا ہے کہ ایک سپر طاقت نے ’’ طاقت کے زعم اور گھمنڈ ‘‘ میں افغان سیاست ، حکومت ، سماج ، معیشت اور قبائلی نظام زندگی کو تتر بتر کر دیا ، کرپشن کا ناسور جسد سیاست میں داخل کیا اور معاشرے اور تاریخی صورتحال کا غلط ادراک کرتے ہوئے ایسے جنگجویانہ اور سفارت کارانہ مغالطوں میں دھنستی چلی گئی جس سے نکلنے کے لیے بھی انکل سام کو امریکی رعونت نے ہولناک غارت گری سے دوچار کیا۔
ان دستاویزات نے ثابت کیا کہ امریکی جنگ زرگری نری حماقت ، جعل سازی، جھوٹ اور خود کو فریب در فریب دینے پر مبنی تھی، بتایا گیا ہے کہ یہ معلومات ویتنام جنگ کے بارے میں پینٹاگان کی دستاویزات سے ملتی جلتی ہیں۔ یہ معلومات ایسے موقعے پر سامنے آئی ہیں جب امریکا طالبان کے ساتھ جنگ کے پر امن تصفیہ کے لیے دوحہ میں مذاکرات کر رہا ہے۔ ریٹائرڈ نیوی افسر جیفری ایگرز جو سابق صدور بش اور اوباما کے ادوار میں وائٹ ہاؤس میں بھی کام کر چکے ہیں کا اپنے انٹرویو میں کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن اپنی آبی قبر میں جنگ کے نتائج پر یہ سوچ کر ہنس رہا ہو گا کہ ہم نے اس جنگ پر کتنا پیسہ خرچ کر ڈالا۔ 2013 میں امریکی فوج کے کرنل اور انسداد دہشت گردی کے ماہر افسر باب کراؤلی کا کہنا ہے کہ وہ اپنی حکومت کو جنگ کی بہترین تصویر دکھانے کے لیے ہر چیز کا ڈیٹا تبدیل کر دیتے تھے۔
ہمارے سروے بھی مکمل غلط ہوتے تھے، ہم جس چیز کو ہر طرح سے ٹھیک دکھاتے تھے وہ آخر ہمارے لیے اپنی ہی چاٹی ہوئی آئس کون بن جاتی تھی۔ بش اور اوباما کے ادوار میں سینیئر ملٹری ایڈوائزر رہنے والے لیفٹیننٹ جنرل ڈگلس لیوٹ کا اپنے انٹرویوز میں کہنا ہے کہ وہ افغانستان کے بارے میں بنیادی سوجھ بوجھ سے ہی عاری تھے۔ ہمیں یہ تک پتہ نہیں ہوتا تھا کہ ہم کیا کرنے جا رہے ہیں۔ ایک افسر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوج اپنے اصل دشمن سے ہی مکمل آگاہ نہیں تھی ، ہمارے کمانڈروں کو یہ نہیں بتایا جاتا تھا کہ ہمارے دشمن طالبان ہیں ، القاعدہ ہے ، داعش ہے یا غیر ملکی جنگجو ہیں یا سی آئی اے کے پے رول پر کام کرنیوالے جنگجو سردار ہیں ، ہمارے لیے اچھے طالبان کون اور برے کون ہیں اور وہ کہاں رہتے ہیں ، پاکستان ہمارا دوست ہے یا دشمن ہے۔
ایک امریکی افسر نے کہا کہ ہم نے افغانستان کے تاریخی پس منظر کا مطالعہ بھی نہیں کیا اور وہاں اپنے جیسا با اختیار مرکزی حکومت کا نظام لانے کی کوشش کی جب کہ وہاں ڈھیلے ڈھالے مرکزی نظام کی ساتھ علاقائی طاقتور حکومتیں رہی ہیں۔ امریکا نے افغانستان میں سماجی نظام تبدیل کرنے کے لیے تقریباً 138 ارب ڈالر خرچ کر ڈالے مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ، اتنی رقم سے جنگ عظیم کے بعد آدھے یورپ کی معیشت کو بحال کر دیا گیا تھا۔ یہ راز بھی اندر کے امریکی ایک افسر نے کھولا، ان دستاویزات میں جنگ سے متعلقہ 400 افراد کے انٹرویوز ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے یہ دستاویزات تین سال کی طویل قانونی جنگ کے بعد حاصل کی ہیں۔
ان میں اس وقت کے امریکی وزیر دفاع رمز فیلڈز کی میموز بھی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ افغانستان میں استحکام تک وہاں سے فوج نہیں نکالنا چاہتے ، ستمبر 2003 کی میمو سے پتہ چلتا ہے کہ رمز فیلڈز بھی اس جنگ میں دشمن کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔ انسانی انٹیلی جنس کی بے حد کمی تھی۔ امریکی حکومت مالی امداد بھی سوچے سمجھے بغیر مہیا کر رہی تھی۔ یو ایس ایڈ کے ایک عہدیدارکا کہنا تھا کہ وہ جو رقم خرچ کر رہے تھے، اس میں 90 فیصد بے مقصد تھی۔ 2011 میں امریکی فوج کے مشیر جان گرافانو کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ جتنے اسکول بنا رہے ہیں ان کا مقصد کیا ہے۔ ایک ٹھیکیدار کا کہنا ہے کہ اسے صرف ہلمند کے ایک ضلع کے لیے ماہانہ 30 لاکھ ڈالر ملتے تھے اور حکم تھا کہ اسے خرچ کرنا ہے۔ اس پیسے کی وجہ سے افغانستان میں کرپشن نئی بلندیوں تک پہنچ گئی۔ 2006 میں حامد کرزئی کے دوران کرپشن دماغی کینسر بن چکی تھی۔
اس کی تصدیق کابل میں امریکی سفیر ریان کروکر بھی کرتے ہیں۔ دیکھنا ابھی یہ ہے کہ امریکا نے دستاویزات کے آئینہ میں جتنا سچ بولا ہے اس کے اثرات و نتائج کا صدر اشرف غنی کی حکومت کیا رد عمل ظاہر کرتی ہے، افغان وار لارڈز اس پر کیا رائے دیتے ہیں، امریکی پالیسیوں سے نالاں دنیا کے جمہوری ممالک امریکی حلیفوں کو کیا مشورے دیتے ہیں اور صدر ٹرمپ درپیش مواخذہ کے بیچ منجدھار میں کیا پینترا بدلتے ہیں۔ اس دوران میں عالمی سیاست اور افغان جنگ سے قریبی واقفیت رکھنے والے سیاسی مفکر، تھنک ٹینکس، سیاسی رہنما ، یورپی زعماء اور مشرق وسطیٰ کے ممالک اس ساری صورتحال پرکیا طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔
امریکی حکام کے مطابق کرپشن کی وجہ سے بھی طالبان کو دوبارہ ابھرنے کا موقع ملا ، امریکی اسپیشل فورسز کے ایک کمانڈر کا کہنا ہے کہ افغانستان کے لیے وہ جو فوج تیار کر رہے تھے ان میں بھی ہر تیسرا نشیٔ ہوتا یا اس کا طالبان کے ساتھ رابطہ ہوتا تھا۔ ہم ہر افغان فوجی کو بندوق کے ساتھ لگے ٹریگر سے تشبیہہ دیتے تھے۔ 2006 میں افغانستان کے لیے فیکٹ فائنڈنگ مشن کے بیرمیک کیفری نے بتا دیا تھا کہ طالبان دوبارہ زور پکڑ رہے ہیں، اس کے بعد سویلین ایڈوائزر میرن اسٹریمکی نے بھی اس کی تصدیق کی اور کہا کہ کرپشن کی وجہ سے افغان عوام میں بے دلی پھیل رہی ہے لیکن رمز فیلڈز نے اسے نظر انداز کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اعترافات افغان جنگ کے تناظر میں امریکا کی طرف سے ’’ میں ہوں اپنی شکست کی آواز‘‘ کی سب سے اونچی بازگشت ہیں۔
امریکی استثنائیت ، رعونت اور گن بوٹ ڈپلومیسی کو ہزیمت کا تاریخی سامنا ہوا ہے، دیکھا جائے تو یہ دستاویزات فرد جرم کا عندیہ دیتے ہیں، امریکا کے فوجی افسران، ماہرین حرب اور جنگی اسٹریٹجٹس نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے اس خوفناک ذہنیت کا بھانڈا بھی پھوڑا ہے جس کے آئینہ میں امریکا پوری دنیا میں بد امنی ، جنگ وجدل ، خوف و دہشت کی علامت بنا ہوا ہے، جس نے دنیا کا امن وسکون تہ وبالا کر دیا ہے۔ ایک بنیادی سوال افغان حکومت اور اس سے برسر پیکار طالبان قیادت کا اور اس سے ساتھ ساتھ پاکستان کا بھی ہے۔ پاکستان کا تعلق افغان جنگ اور امریکا سے تہ در تہ اسٹرٹیجک گہرائی کا ہے۔ امریکا کے اعترافات کی رینج دور تک دکھائی دیتی ہے۔ امریکا نے ایک پینڈورا بکس کھولا ہے۔ ہم ایک برمودا ٹرائنگل سے نکلے ہیں اور ابھی انتظارکرنا ہو گا کہ امریکا، افغان ڈرامہ کا دوسرا ایکٹ کیا ہو گا؟