↧
مُلک سے مَلک تک
ریاست مدینہ کی عمرانی کتاب کے اوراق بھی کورے ہو گئے ہیں۔ عاشق اعوان کی احتساب سے عاشقی اور شیخ رشید کی کرپشن کے خلاف جہاد کی شیخیاں سب ہڑتال پر چلی گئی ہیں۔ نہ قوم کے امیج کے بارے میں مقتدر حلقے پریشان ہیں اور نہ کوئی پسندیدہ صحافیوں کو بلا کر جے آئی ٹی بنانے پر اصرار کر رہا ہے۔ سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ سب کی بولتی بند ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شہزاد اکبر جیسے لوگ یہ وضاحت کریں کہ وہ ملک ریاض کے پریس انفارمیشن آفیسر کے طور پر کام کر رہے ہیں یا حکومتی پالیسی کی نمائندگی کرتے ہیں؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جناب جسٹس جاوید اقبال اپنے اقبال کو بلند کرتے اور تاریخ میں جاوید ہونے کا بندوبست کرتے ہوئے پوچھتے کہ پاکستان سے کتنی رقوم کتنے عرصے میں کس طریقے سے باہر گئی ہیں؟ یہ بھی ہونا چاہیے تھا کہ ہمارے ہر وقت متحرک ادارے یہ جاننے کی کوشش کرتے کہ پاکستان میں یہ پیسے کیسے بنے؟ کتنے عرصے میں بنے؟ کہاں سے بنے؟ اور کیوں کر یہاں سے بھیجے گئے؟ لیکن زبر زیر ہو گئی اور پیش پیش ہونے والے قابل شرم پس و پیش کرنے لگے اور صرف یہی نہیں بلکہ ایک حیران کن کاوش کے ذریعے مُلک کو مَلک کے لیے وقف کر دیا۔
↧