پاکستان میں اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ خیال رہے کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر عام طور پر انٹربینک کے نرخ سے زیادہ پر تجارت کرتا ہے لیکن گزشتہ کچھ ماہ سے اوپن مارکیٹ کے نرخ انٹر بینک کے نرخوں کے آس پاس نظر آ رہے ہیں۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گزشتہ پانچ ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ معیشت کے ماہرین در آمدات میں خاطر خواہ کمی کو روپے کی قدر میں اضافے کی بڑی وجہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں جبکہ غیر ملکی سرمایہ کاری اور حکومت سے قرض کے معاہدوں کی وجہ سے ڈالر کے بہاؤ میں اضافے کو بھی روپے کی قدر میں بہتری کی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ خیال رہے کہ حکومت اکتوبر میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے یعنی آمدن اور اخراجات کے درمیان فرق میں کمی لانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملکی کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں چار سال بعد مثبت اضافہ ہوا۔
حکومت نے تجاویز پر عمل کیا ہے فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان کہتے ہیں کہ حکومت نے روپے کی قدر میں اضافے کے حوالے سے تجویز کردہ اقدامات پر عمل درآمد کیا ہے جس کے نتیجے میں گزشتہ روز اوپن مارکیٹ میں ڈالر روپے کی بہت کم سطح پر پہنچ گیا تھا۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈالر کے بہاؤ یعنی گردش اور مقامی کرنسی پر توجہ میں اضافے کی وجہ سے کرنسی ڈیلرز کو آئندہ ماہ روپے کی قدر میں مزید اضافے کی امید ہے۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں کمی 26 جون کے بعد آنا شروع ہوئی تھی اور گذشتہ پانچ ماہ میں اس میں لگ بھگ نو روپے کی کمی ہوئی ہے۔
رواں برس جون سے لے کر اب تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 5.67 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو اپنے پہلے مالی سال میں ڈالر کی قیمت میں غیر معمولی اضافے کے باعث خاصی تنقید کا سامنا تھا اور روپے کی قدر کم ہونے سے صرف جون کے مہینے میں ملکی قرضوں کی مالیت میں 1000 ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا۔ ماہرین معیشت روپے کی قدر میں اضافے کو ملکی معیشت کے لیے مستحسن قرار دے رہے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ صرف درآمدات میں کمی لانا کافی نہیں ہو گا بلکہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے برآمدات میں اضافہ ناگزیر ہے۔