Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

جیک ما ایک جیتا جاگتا معاشی جادوگر

$
0
0

چین کے شہر ہنگ زُو کے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والا یہ بچہ آئندہ چند سالوں میں تجارت کی دنیا میں کیسی قیامتیں ڈھانے والا ہے کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا۔ دُھن کا پکا، من کا سچا اور انگریزی سیکھنے کے جنون میں مبتلا ”جیک ما“ نامی یہ لڑکا جس طرح کامیابیوں کی منزلیں طے کرتا ہوا دنیا کا طاقت ور ترین شخص بن جاتا ہے وہ حیرت انگیز بھی ہے اور جدوجہد کرنے والوں کے لیے قابلِ مطالعہ بھی۔ ایسا نہیں کہ وہ منھ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا ہو یا قسمت کی دیوی شروع ہی سے اُس پر مہربان رہی ہو۔ اُس کا بچپن سخت جدوجہد اور مسلسل ناکامیوں سے بھرا ہوا ہے۔ اپنی پہلی ملازمت کے لیے جب اُس نے دیگر ۲۳ اُمیدواروں کے ساتھ کے ایف سی میں درخواست جمع کروائی تو بقیہ ۲۳ کو تو ملازمت پر لے لیا گیا مگر جیک ما کو چلتا کیا۔ اُن کی دانست میں یہ نالائق تھا۔ ایسا ہی کچھ سلوک میکڈونلڈ والوں نے بھی کیا۔

یہ جہاں بھی جاتا دھتکار دیا جاتا، معذرت کی جاتی….تو کیا وہ مایوس ہو کر گھر بیٹھ گیا؟….نہیں ہر گز نہیں….شاید یہی وجہ ہے کہ ۱۰ستمبر ۲۰۱۹ کو ۵۵ سال کی عمر میں جب یہ چُنی آنکھوں اور چپٹے چہرے والا، دھان پان سا بندہ خود اپنی ہی کمپنی سے ریٹائر ہوا تو اس کے ذاتی اثاثوں کی مالیت ۳۵۰۶ بلین ڈالر تھی۔ اب ذرا اس رقم کو اپنے رُپے میں ترجمہ کر کے تو دیکھیے، یہ رقم ساڑھے پانچ کھرب روپے سے زیادہ بنتی ہے۔ دنیا کے چند امیر ترین اور اہم ترین لوگوں میں شمار کیا جانے والا، چین کی کمیونسٹ پارٹی کا رکن، دنیا بھر میں چینی مصنوعات اور تجارت کا سفیر، سیاست دان، فلن تھراپسٹ، سرمایہ کار اور دنیا کی سب سے بڑی تجارتی ویب سائٹ ”علی بابا“ کا مالک۔

بچپن اور جوانی کی مسلسل ناکامیوں کے بعد کیا اتنی بڑی کام یابی بھی حاصل کی جاسکتی ہے !! ”جیک ما“ نے دنیا بھر کے لوگوں کوحیران کر دیا۔ ہمارے قارئین ضرور جانتے ہوں گے کہ جو لوگ ملازمت پر ذاتی کام کو ترجیح دیتے ہیں اور جو لوگ اپنی آنکھوں میں بڑے خواب سجا کر بہت کم وسائل سے چھوٹا سا کام شروع کر دینے میں ہچکچاتے نہیں، تو اس نوعیت کے نئے اداروں کو ”اسٹارٹ اپ“ کہا جاتا ہے۔ دنیا میں ایسی بہت سے مثالیں ہیں کہ کسی نے معمولی رقم سے تجارت کا آغاز کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے تجارت کو کامیابیوں کے بلندی پر پہنچا دیا، مگر جیک ما جیسی بلندی تو آج تک کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔ جیک ما نے جس ادارے کومحض ۱۸ کارکنان کے ساتھ مل کر ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ سے شروع کیا تھا وہ ادارہ ۳۰ ہزار کارکنان تک جا پہنچا۔ ”جیک ما“ کہتا ہے میں نے ۱۴ ملین ملازمتیں پیدا کیں۔ گویا وہ ۱۰ ملین سے زیادہ خاندانوں کی کفالت کا ذریعہ بن گیا۔ کیا کہنے!

میرے بس میں ہو تو میں نئے تجارتی اداروں کی پیشانی پر ”جیک ما“ کی تصویریں آویزاں کر دوں اور درس گاہوں سے نکل کر روزگار کی تلاش میں مارے مارے پھرنے والے نوجوانوں سے کہوں کہ، اس شخص کو غور سے دیکھو، محنت کے لیے اس کی کامیابیوں سے تحریک لو، بڑے ویژن کے لیے اس کی چُنی سی آنکھوں میں جھانکو اور اپنے آپ کو سمجھاؤ کہ اگر آہنی عزم اور دوربین نگاہیں کہیں سے مل جائیں تو اتنی بڑی کامیابی ممکن ہو سکتی ہے۔ جیک ما کی کہانی بھی خوب ہے، بچپن میں پڑھنے لکھنے کا ایسا کوئی خاص شوق نہ تھا، مگر ہاں انگریزی سیکھنے کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ ہنگ زُو کے انٹرنیشنل ہوٹل میں کسی غیر ملکی کو دیکھ لیتا تو فوراً بے تکلف ہو جاتا اور انگریزی میں بات چیت کی کوشش کرتا، پھر اسے اپنا ایڈریس دیتا اوریوں قلمی دوستی کا آغاز کر دیتا۔

ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہر روز اپنی سائیکل پر ۷۰ میل کا سفر کرتا اور سیاحوں کے ایک بڑے مرکز پہنچ کر ان سے انگریزی میں باتیں کیا کرتا۔ ایک انگریز سیاح نے اس کا نام ”جیک“ رکھ دیا۔ واضح رہے کہ ”جیک“ اس کا پیدائشی نام نہ تھا۔ جیک ما نے، جیسے تیسے ۱۹۸۸ میں انگلش میں بی اے کر لیا اور پھر کچھ عرصے کے لیے انگریزی کی تدریس سے وابستہ ہو گیا۔ ہارورڈ بزنس اسکول میں دس مرتبہ داخلے کی کوشش کی، خیر سے ہر بار ناکام ہوا۔ سچ یہ ہے کہ کامیابی تو کہیں اور اس کی منتظر تھی۔ بلآخر اس نے چند کارکنان کے ساتھ مل کر ایک اپارٹمنٹ میں چھوٹی سی کمپنی قائم کی۔ آگے چل کر یہی کمپنی ”علی بابا“ کے نام سے دنیا میں شہرت پانے لگی۔ آج دنیا میں کوئی ایسا تجارتی ادارہ نہیں جو علی بابا پہ رجسٹر ہوئے بغیر کام یابی سے اپنی تجارت کو فروغ دے سکے۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ ۱۰ ملین سے زیادہ لوگ ہر روز علی بابا کی ویب سائٹ کا وزٹ کرتے ہیں اور براہِ راست یا بالواسطہ اربوں کھربوں کی خریداری کرتے ہیں۔

جیکما نے کیا خوب صورت بات کہی “ اگر بندروں کے سامنے کیلے اور پیسے ایک ساتھ رکھے جائیں تو وہ ہمیشہ کیلوں کا انتخاب کریں گے ، اس لیئے کہ انہیں یہ بات نہیں معلوم کہ پیسوں سے بہت زیادہ کیلے خریدے جا سکتے ہیں ۔ یہی حال لوگوں کا بھی ہے، ان کی اکثریت ملازمت کو کاروبار پہ ترجیح دے گی ۔ اس کا کہنا ہے کہ ہر حال میں منافع اجرت سے بہتر ہے ۔ اجرت سے پیٹ پالا جا سکتا ہے جبکہ منافع سے قسمت بدلی جا سکتی ہے، خواب کی تعبیریں خریدی جا سکتی ہیں گزشتہ ۱۰ستمبر کو جب ہمارے ٹی وی چینلز پر ماہرین معاشیات اور تجزیہ نگار ہماری معاشی زبوں حالی کے اسباب پر بحث کر رہے تھے، عین اسی روز دنیا بھر کے ٹی وی چینلز ”جیک ما“ کو دنیا کا کام یاب ترین انسان ثابت کرنے پہ اپنی توانائیاں صرف کر رہے تھے۔ اس روز ”جیک ما“ نے اپنی ۵۵ ویں سالگرہ کا کیک کاٹا اور اعلان کیا کہ ”میں خود اپنی ہی کمپنی سے ریٹائرمنٹ کااعلان کرتا ہوں، میری بقیہ زندگی تعلیم کے میدان میں کام کرتے ہوئے گزرے گی۔“ تعلیم جو قوموں کی کامیابی کی بنیاد ہے۔

سلیم مغل

بشکریہ روزنامہ جسارت


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>