یہ حُسنِ اتفاق ہے کہ چیئرمین سینیٹ پر عدم اعتماد کےسلسلے میں اپوزیشن اراکین کے حوالے سے ہم اپنے کالموں میں جن خدشات کا اظہار کر رہے تھے وہ درست ثابت ہوئے ہیں۔ ہمارے نہ تو باوثوق ذرائع ہیں اور نہ ہی باخبر لوگوں سے میل جول۔ یہ وژن یا زیرک زاویے کا بھی کمال نہیں، بلکہ اُس موقع پرست سیاست کی دیدہ دلیری ہے جو ہم جیسے کم علم وکج فہموں سے بھی کوئی بات خفیہ رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ جو کچھ حکمراں و سیاستدان کہتے ہیں اب دیہات سے لے کر شہروں ومحلوں تک میں لوگ جان چکے ہوتے ہیں کہ ان میں سچ کتنا ہے یا اس کے پسِ پشت کیا اغراض ہیں۔
ہمارا ان کالموں میں کہنا یہ تھا کہ 2018 کے انتخابات سے قبل سینیٹ انتخابات میں جب موجودہ اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے علاوہ جماعت اسلامی بھی رضا ربانی کو ووٹ دینے پر آمادہ تھی، تو وہ کیا مقاصد تھے کہ رضا ربانی کی یقینی کامیابی کو نظر انداز کر کے پیپلز پارٹی نے صادق سنجرانی صاحب کو اپنا اُمیدوار قرار دیا تھا۔ یہاں اس کی تفصیلات یوں غیر ضروری ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ایسے تمام آثار ظاہر ہو گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے 30 جون کو روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم ’اے پی سی، بڑے سیاستدان چھوٹے فیصلے‘ میں لکھا ’’اپوزیشن نے اے پی سی کا ایسا ڈھنڈورا پیٹا تھا کہ جیسے یہ مہنگائی بم کیخلاف ایٹم بم ثابت ہو گی لیکن وائے افسوس کہ اس میں رہبر کمیٹی کے ماسوا کچھ بھی برآمد نہ ہو سکا! سامنے کا واقعہ یہ ہے کہ بڑے سیاستدانوں نے چھوٹے فیصلے کئے۔
چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کا فیصلہ اگرچہ بڑا ہے لیکن پی پی اس سلسلے میں سابقہ کمٹمنٹ سے انخراف کا کس قدر جوہر رکھتی ہے، یہ سامنے آنا ابھی باقی ہے‘‘۔ 21 جولائی کو اپنے کالم’ سینیٹ، اپوزیشن کو درپیش امتحان‘ میں ہم نے لکھا ’’کیا اپوزیشن کی جانب سے ہارس ٹریڈنگ کا واویلا ان کے نظریاتی ضعف کو ظاہر نہیں کرتا، کہ انہوں نے ایسے لوگوں کو ایوان بالا کا رکن بنایا ہے جن پر انہیں اعتبارہی نہیں کہ وہ کب بِک جائیں گے۔ یہ چیئرمین سینٹ کا انتخاب ہی ہے جس سے اپوزیشن کی درست پوزیشن کا تعین ہو سکے گا۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی آزمائش پیپلز پارٹی کو لاحق ہے، اس جماعت نےجب جناب رضا ربانی پرصادق سنجرانی صاحب کو فوقیت دی تھی تو ظاہر ہے کسی کمٹمنٹ کے تحت ہی ایسا کیا تھا، اسی سبب سوال کیا جاتا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی اس کمٹمنٹ کو بالائے طاق رکھ پائے گی؟ یا سارا نزلہ کسی جہاز والے پر اُتار دیا جائے گا‘‘۔
خیر اب تحریک عدم اعتماد کی ناکامی نے اندرون ِ خانہ ہونے والے منصوبوں کو ہر شہری کیلئے عام کر دیا ہے۔ آپ دیکھیں کہ جہاں حکومت اپنے چیئرمین کے خلاف تحریک کو ناکام بناتی ہے وہاں وہ ڈپٹی چیئرمین کو بھی بچانے کا اہتمام کئے ہوئے ہوتی ہے۔ اس سے یہ ظاہر یہ ہوتا ہے کہ جس طریقے سے اس سیٹ اپ کو قائم کیا گیا تھا، اُسی سلیقے سے اسے برقرا ر بھی رکھا گیا، معاملات جس طرح بھی طے ہوئے ہوں لیکن تحریک اعتماد لا کر اپوزیشن نے اپنا اعتماد آپ کھو دیا ہے، بقول مومن خان مومنؔ
اُلجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں لو آپ اپنے دام میں صیّاد آ گیا
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جس کی تجویز پر تحریک اعتماد کا فیصلہ کیا گیا، اُس جماعت کو یہ اندازہ کیوں نہ ہو سکا کہ اس کے نتائج ماسوائے رسوائی کے اور کیا برآمد ہو سکیں گے، بلکہ اب تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جہاں اس واقعہ سے اپوزیشن کی رہی سہی پوزیشن کو دھچکا لگا ہے وہاں اپوزیشن کے باہمی اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچی ہے، یوں اس بے وقت کی راگنی سے ماسوائے چیئرمین سینیٹ کو ووٹ دینے والوں کے، سب تاوان میں رہے، سابقہ کمٹمنٹ کے ساتھ ساتھ گھوٹکی انتخابات کا تعلق بھی بتایا جاتا ہے۔ ان جیسی دیگر باتوں سے قطع نظر سوال یہ ہے کہ اس طرح دن دہاڑے ’کودیتا‘ ہونے کے بعد بھی بالخصوص اپوزیشن کی بڑی جماعتیں کیا ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہوئے آگے بڑھیں گی!
یہ درست ہے کہ کل کی حریف ان جماعتوں کو حالات کے جبر نے اکٹھا کر رکھا ہے، لیکن وسیع تناظر میں سیا سی حلقے یہ توقع بھی کر رہے تھے کہ شاید ماضی کی جملہ غلاظتوں کو دفن کر کے اپوزیشن حکومت مخالف سرگرمیوں کے علاوہ کوئی ایسا چارٹر بنانے میں کامیاب ہو جائے گی جو آئندہ پائیدار جمہوری نظام کا ضامن بن سکے۔ شومئی قسمت مگر اس ڈرامے کے بعد سیاسی کارکن انگشت بدنداں ہیں، وہ یہ بات ماننے کیلئے تیار نہیں کہ محض پیسہ ہی اس ڈرامے کا اصل کردار ہے، سینیٹ انتخابات کے فوری بعد پریس کانفرنس میں اگرچہ بلاول بھٹو گرج رہے تھے لیکن مصلحت کی چادر میں لپٹے دو چار جملے کہنے والے شہباز شریف سے لے کر حاصل بزنجو تک کے چہرے شاید کہہ رہے تھے۔
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی