وزیراعظم کے حالیہ دورۂ امریکا میں سب سے زیادہ توجہ افغان امن عمل پر تھی۔ صدر ٹرمپ کی خواہش ہے کہ صدارتی انتخابات سے پہلے اس مسئلے کو حل کر لیں۔ شاید اسی وجہ سے یہ دورہ کامیاب رہا، کیوںکہ امریکا کو اس سلسلے میں پاکستان کی مدد درکار ہے۔ دوسری جانب طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بھی شروع ہے۔ جس میں چین، روس، امریکا اور پاکستان شامل ہیں۔ اس سے پہلے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد بھی طالبان کے ساتھ ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ شاید پہلی بار امریکا افغان مسئلے کے حل کے لیے اتنا سنجیدہ دکھائی دے رہا ہے۔ اس مسئلے کو حل کرنے میں کئی قسم کی پیچیدگیاں بھی موجود ہیں، جو مسائل کا باعث بن سکتی ہیں۔
اب تک طالبان کے ساتھ جو مذاکرات ہوئے ہیں وہ امریکا کے ساتھ ہوئے ہیں۔ افغان حکومت کے ساتھ طالبان کی براہ راست بات چیت نہیں ہو سکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان امریکا کو ہی اصل طاقت سمجھتے ہیں، جبکہ افغان حکومت ان کی نظر میں کٹھ پتلی حکومت ہے۔ سب سے پہلی کوشش تو یہ ہو گی کہ طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ بات چیت پر راضی کیا جائے، جو کہ امریکا کی بھی خواہش ہے۔ شاید دبائو ڈال کر طالبان کو مذاکرات کےلیے آمادہ کر لیا جائے گا۔ لیکن جب اس کے بعد اگر حکومت سازی کا مرحلہ آتا ہے تو کیا طالبان موجودہ افغان سیاسی قیادت کے ساتھ بیٹھنا پسند کریں گے؟ آئین سازی کا مرحلہ بھی بہت پیچیدہ ہو گا۔ طالبان موجودہ جمہوری سسٹم کو پسند نہیں کرتے تو وہ اس سسٹم کا حصہ کیسے بنیں گے؟ دوسری صورت میں اگر طالبان خلافت کا نظام لانا چاہیں تو امریکا اس کو کیسے قبول کرے گا؟
طالبان کا ایک اہم ترین مطالبہ غیرملکی افواج کا انخلا ہے۔ پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کی بھی یہی خواہش ہے، لیکن یہ مطالبہ کسی باقاعدہ ڈیل تک ممکن نہیں ہے۔ اگر یہ مطالبہ پورا ہو بھی جائے تو افغانستان کی سیکیورٹی کا ذمے دار کون ہو گا، جبکہ افغانستان کی کوئی باقاعدہ فوج اور ایئرفورس بھی نہیں ہے۔ اس وقت مذاکرات صرف طالبان کے ساتھ ہو رہے ہیں۔ داعش اور دیگر جنگجو گروپ جو افغانستان میں سرگرم ہیں، وہ مذاکرات کا حصہ نہیں ہیں۔ جنگ بندی صرف طالبان کے ساتھ ہی ممکن ہو گی، دیگر جنگجو تنظیمیں ہتھیار اٹھائے رکھیں گی۔ یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے، کیوںکہ نیٹو افواج کے انخلا کے بعد ایک خلا پیدا ہو جائے گا اور یہ خلا ایک ایسے موقع پر پیدا ہو رہا ہے جب داعش مشرق وسطیٰ میں شکست کے بعد افغانستان میں قدم جمارہی ہے۔ داعش کی افغانستان میں موجودگی خطے کے تمام ممالک کےلیے بہت بڑاخطرہ ہے۔
پچھلے کچھ عرصے میں خطے کے حالات بہت تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ امریکا کی ایران کے ساتھ کشیدگی بہت بڑھ چکی ہے۔ ایران کا امریکی ڈرون گرانا اور پھر برطانوی بحری جہاز کو اپنے قبضے میں لے لینا حالات کو مزید سنگین کر دیتا ہے۔ دوسری جانب امریکا کی چین کے ساتھ تجارتی جنگ اور روس کے ساتھ بگڑتے تعلقات سونے پر سہاگہ ہیں۔ ان حالات میں امریکا کسی نہ کسی صورت میں افغانستان میں موجود رہے گا۔ امریکا کی موجودگی نہ طالبان کو اور نہ ہی علاقائی طاقتوں کو منظور ہو گی۔ ایسے حالات میں پراکسی وار کو تقویت ملے گی اور حالات ویسے ہی رہیں گے یا پھر ایک نئے بحران کا راستہ ہموار ہو گا۔
افغان امن عمل میں خطے کے دو اہم ممالک ایران اور انڈیا غائب ہیں۔ انڈیا میں اس کو اپنی پالیسی کی ناکامی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ انڈیا کے ایک ممتاز کالم نگار اور سفارت کار بھدرا کمار نے اس کو انڈیا کی شکست اور پاکستان کی کامیابی قرار دیا ہے۔ انڈیا اس سے پہلے دو تین دفعہ اس پیس پراسس کو سبوتاژ کر چکا ہے۔ انڈیا کے افغانستان میں معاشی اور اسٹرٹیجک نوعیت کے مفادات ہیں۔ ان حالات میں انڈیا کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ ہم کو سفارتی محاذ پر بہت ایکٹیو رہنا پڑے گا۔ اس وقت جہاں طالبان کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں، وہاں ساتھ ساتھ دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں بھی ہو رہی ہیں۔ امریکا کی خواہش ہے کہ طالبان کے ساتھ فوری طور پر جنگ بندی ہو جائے، جبکہ طالبان کسی حتمی معاہدے تک جنگ بندی پر راضی نہیں ہوں گے۔ اس پیس پراسس کے دوران اگر طالبان کوئی بڑا حملہ کر دیتے ہیں یا امریکی افواج کسی اہم طالبان لیڈر کو نشانہ بناتی ہیں تو یہ افغان امن عمل کے لیے بہت بڑا دھچکا ہو گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پیس پراسس کے دوران دونوں جانب سے جنگ بندی ہو۔