دنیا میں مکڑیوں کی 43 ہزار سے زائد انواع پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے بہت تھوڑی خطرناک ہیں جبکہ 30 سے بھی کم انواع ایسی ہیں جو انسانی اموات کا سبب بنتی ہیں۔ انسانوں کے لیے مکڑیوں کی اتنی کم انواع نقصان دہ کیوں ہیں؟ اس کی ایک وجہ تو انسانوں اور مکڑیوں کے سائز میں پایا جانے والا فرق ہے۔ مکڑیوں کا زہر چھوٹے جانوروں پر اثر کرنے لیے بنا ہوتا ہے۔ بعض انواع کا زہر جِلدی زخم اور دانے پیدا کرتا ہے یا پھر اس سے الرجی کا ایسا ردِ عمل ہوتا ہے کہ موت واقع ہو جاتی ہے۔ خیال رہے کہ مکڑیوں کے کاٹنے سے اموات بہت ہی کم ہیں اور ان کا علاج بھی ممکن ہے۔ آئیے اب دنیا کی مہلک مکڑیوں کے بارے میں جانتے ہیں۔
بھوری تیاگی مکڑی
بھوری تیاگی مکڑی ریاست ہائے متحدہ امریکا میں پائی جاتی ہے۔ اس کا زہر کاٹنے کے مقام کے گرد خون کی وریدوں کو تباہ کر دیتا ہے، جس کے باعث بعض اوقات بڑا جِلدی السر پیدا ہو جاتا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والے زخم کو مندمل ہونے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ یہ بگڑ کر موت کا سبب بھی بن جاتا ہے البتہ ایسا کم کم ہوتا ہے۔ اس مکڑی کے سامنے والے حصے پر وائلن کی طرح کا ڈیزائن ہوتا ہے۔ یہ مکڑی، جسے وائلن مکڑی بھی کہا جاتا ہے، عام طور پر ریاست ہائے متحدہ امریکا کے مغربی اور جنوبی علاقے میں رہتی ہے۔ زیادہ تر مکڑیاں سات ملی میٹر (0.25 انچ) کی ہوتی ہیں اور ان کی ٹانگیں 2.5 ملی میٹر (ایک انچ) تک پھیل جاتی ہیں۔ یہ مکڑی غاروں، بِلوں اور دیگر محفوظ جگہوں میں رہتی ہے۔ یہ خالی عمارتوں میں بھی رہائش پذیر ہو سکتی ہے۔
زردتھیلا مکڑی
یہ مکڑیاں ’’کلبیونیڈز‘‘ خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے جسم کی لمبائی تین سے 15 ملی میٹر (تقریباً 0.12 سے 0.6 انچ) ہوتی ہے۔ یہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے علاوہ میکسیکو اور جنوبی امریکا میں پائی جاتی ہیں۔ یہ عموماً عمارتوں کے اندر پناہ لیتی ہیں۔ اس مکڑی کا سائٹو ٹاکسن زہر (ایسا مادہ جو خلیوں کو تباہ کرتا اور انہیں اپاہج بناتا ہے) بافتوں کو برباد کر دیتا ہے مگر خطرناک حد تک ایسا کبھی کبھار ہوتا ہے۔ کاٹنے کے مقام پر سرخی اور سوزش کا ہونا عام ہے۔ یہ ’’اطاعت گزار‘‘ مخلوق نہیں، مثلاً مادہ مکڑی اپنے انڈوں کا دفاع کرتے ہوئے انسانوں کو کاٹ لیتی ہے۔
بھیڑیا مکڑی
بھیڑیا مکڑیوں کا تعلق ’’لائیکوسیڈائی‘‘ خاندان سے ہے۔ یہ مکڑیوں کا ایک بڑا خاندان ہے جو دنیا بھر میں پایا جاتا ہے۔ ان کا نام ان کی عادت کے مطابق ہے، یہ بھیڑیئے کی طرح اپنے شکار کا پیچھا کرتی اور جھپٹتی ہیں۔ ان مکڑیوں کی 126 اقسام شمالی امریکا اور 50 یورپ میں پائی جاتی ہیں۔ یہ زیادہ ترچھوٹے اوردرمیانے سائز کی ہوتی ہیں۔ سب سے بڑی 2.5 سینٹی میٹر (ایک انچ) لمبی ہوتی ہے اور ٹانگوں کی لمبائی بھی تقریباً اتنی ہی ہوتی ہے۔ بیشتر بھیڑیا مکڑیاں گہرے بھورے رنگ کی ہوتی ہیں اور ان کے جسم پر لمبے اور کھلے بال ہوتے ہیں۔
یہ تیز دوڑ سکتی ہیں اور عام طور پر گھاس میں یا پتھروں، لکڑی اور پرانے پتوں کے نیچے پائی جاتی ہیں۔ یہ ان گھروں میں داخل ہو سکتی ہیں جہاں حشرات موجود ہوں۔ مادہ مکڑی کے انڈے جسم سے منسلک تھیلی میں ہوتے ہیں، اور یوں لگتا ہے وہ ایک بڑی گیند کو گھسیٹ کر چل رہی ہو۔ انڈوں سے نکلنے کے بعد بچے کئی روز اپنی ماں پر سوار رہتے ہیں۔ یہ مکڑی اگرچہ جارحانہ رویہ نہیں رکھتی، لیکن خطرناک سمجھی جاتی ہے۔ بعض اوقات کاٹنے سے الرجی پیدا ہوتی ہے جس سے قے آنے، سر چکرانے اور دل کی دھڑکن تیز ہونے جیسی علامات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس کے بڑے دانت پیوست ہو کر تکلیف دیتے ہیں۔
آوارہ برازیلی مکڑی
اس طرح کی مکڑیوں کو کیلا مکڑیاں بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ کیلوں کے پتوں پر کثرت سے ملتی ہیں۔ ان کا دفاعی انداز جارحانہ ہوتا ہے، جس میں یہ اپنی اگلی ٹانگوں کو سیدھا فضا میں بلند کر لیتی ہیں۔ یہ انسانوں کے لیے زہریلی ہیں، اور دنیا کی تمام مکڑیوں میں سب سے زیادہ مہلک سمجھی جاتی ہیں۔ ان کا زہر اعصابی نظام کو تباہ کرتا ہے، جس سے ظاہر ہونی والی علامات میں زیادہ تھوک بننا، دل کی بے ترتیب دھڑکن و دیگر شامل ہیں۔
سیاہ وِدھوا مکڑی
یہ مکڑی ریاست ہائے متحدہ امریکا میں ہر برس 2500 افراد کو مراکز صحت لانے کا سبب بنتی ہے۔ یہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے علاوہ کینیڈا، لاطینی امریکا اور ویسٹ انڈیز میں پائی جاتی ہے۔ مادہ مکڑی سیاہ اور چمکدار ہوتی ہے اور عموماً اس کے پیٹ پر سرخ یا زرد نشان ہوتا ہے۔اس کا جسم 2.5 سینٹی میٹر لمبا ہوتا ہے۔ ا س کے نر کم ہی دکھائی دیتے ہیں، کیونکہ مادہ انہیں مار کر کھا جاتی ہے۔ نر مادہ کے سائز کا ایک چوتھائی ہوتا ہے۔ کاٹنے پر انسان کو جِلد پر سوئیاں چبھنے کا احساس ہوتا ہے، اس کے ساتھ پٹھوں میں درد اور متلی ہوتی ہے۔ اس سے پردۂ شکم قدرے اپاہج ہو جاتا ہے جس سے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ زیادہ تر لوگ کسی پیچیدگی کے بغیر صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ ان کے کاٹنے سے شیر خواروں اور معمر افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔
سرخ وِدھوا مکڑی
ٹانگوں کے رنگ کی وجہ سے اسے سرخ ٹانگ والی مکڑی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے پیٹ پر بھی عام طور پر ایک سرخ علامت ہوتی ہے۔ مادہ ڈیڑھ سے دو انچ کی ہوتی ہے جبکہ نر کا سائز اس کا ایک تہائی ہوتا ہے۔ یہ زیادہ تر وسطی اور جنوبی فلوریڈا میں پائی جاتی ہے۔ یہ حشرات کھاتی ہے اور انسانوں کی طرف اس کا رویہ جارحانہ نہیں۔ البتہ اپنے انڈوں کو نقصان سے بچانے کے لیے یہ حملہ کر دیتی ہے۔ اس کے کاٹنے سے وہی علامات ظاہر ہوتی ہیں جو سیاہ وِدھوا مکڑی کے زہر سے ہوتی ہیں۔ بہت چھوٹے بچے، بوڑھے اور بیمار افراد کے لیے اس کا زہر مہلک ہو سکتا ہے۔
بھوری وِدھوا مکڑی
خیال کیا جاتا ہے کہ اس مکڑی کا ارتقا افریقہ میں ہوا تاہم اولین نمونہ جنوبی امریکا سے ملا۔ یہ بہت تیزی سے پھیلتی ہے۔ یہ مکڑی جنوبی کیلی فورنیا، کیربیئن، امریکا کی جنوبی ساحلی ریاستوں، جاپان، جنوبی افریقہ، مڈغاسکر، آسٹریلیا اور قبرص میں پائی جاتی ہے۔ یہ مکڑی اپنا گھر عمارات، پرانے ٹائروں اور آٹو موبائلز کے نیچے بنانا پسند کرتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ گھاس پھوس اور سبزیوں میں پائی جاتی ہے۔ اس کا زہر سیاہ وِدھوا مکڑی سے دگنا مضر ہوتا ہے۔ تاہم یہ جارح نہیں اور کاٹنے پر اپنا تھوڑا سا زہر انڈیلتی ہے۔ 1990ء کی دہائی کے اوائل میں مڈغاسکر میں اس کے کاٹنے سے دو اموات کا پتا چلا تھا۔ ان افراد کی صحت پہلے سے خراب تھی اور انہیں زہر کا تریاق بھی میسر نہیں آیا تھا۔
سرخ پشت مکڑی
یہ مکڑی آسٹریلیا کی مقامی ہے تاہم انگوروں کی برآمد کے ساتھ نیوزی لینڈ، بلجئیم اور جاپان بھی پہنچ چکی ہے۔ یہ عموماً اپنا جالا انگور کے پتوں اور شاخوں پر بناتی ہے۔ ماسوائے چند ایک علاقوں کے یہ پورے آسٹریلیا میں پائی جاتی ہے۔ یہ شہری علاقوں میں گھروں کے اندر بھی رہتی ہے۔ اس کی سیاہ پشت پر سرخ پٹی ہوتی ہے یا ریت کی گھڑی جیسا سرخ نشان ہوتا ہے۔ یہ جارح نہیں۔ اکثر جوتوں یا کپڑوں میں پھنس جانے کی صورت میں کاٹتی ہے۔ انڈوں کا دفاع کرتے ہوئے بھی مادہ مکڑی کاٹ سکتی ہے۔ اس کے کاٹنے سے درد ہوتا ہے، پسینہ آتا ہے، دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے اور لمفی گلٹیاں سوج جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے آخری ہلاکت 1956ء میں ریکارڈ ہوئی۔
قیفی جالا مکڑی
ان کا جالا قیف کی طرح ہوتا ہے اور اسی نسبت سے ان کا نام رکھا گیا ہے۔ یہ جالے کے اندر بیٹھ کر شکار کا انتظار کرتی ہے۔ جنوبی اور مشرقی آسٹریلیا میں ان کا خاصا خوف پایا جاتا ہے۔ یہ بہت جارح ہوتی ہے اور ان کے کاٹنے سے سڈنی میں بہت سی اموات کی اطلاعات سامنے آ چکی ہیں۔