Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

کوہِ نور ہیرا تاریخ کے آئینے میں

$
0
0

جب بھی کوہِ نور ہیرے کا ذکر ہوتا ہے تو ہمیشہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی دیو مالائی کہانی کو بیان کیا جا رہا ہے حالانکہ یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حقیقی داستان ہے۔ یہ ہیرا جنوبی اور مغربی ایشیاء میں بہت سے ہاتھوں میں رہا۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہ ہیرا برطانیہ بھجوا دیا تھا۔ بعد از اںاس ہیرے کو ٹاور آف لندن کے جیول ہاؤس میں رکھ دیا گیا ۔ ’’کوہ نور‘‘ دنیا کے چند بڑے ہیروں میں سے ایک ہے، وزن 21.12 گرام ہے۔ اردو، ہندی اور فارسی میں کوہ نور کا مطلب ’’روشنی کا پہاڑ‘‘ (Mountain of Light) ہے۔ کوہ نور ہیرے کے حصول کے لئے متعدد لڑائیاں لڑی گئیں اس لیے جب یہ برطانوی شاہی خاندان کی ملکیت میں آیا تو یہ خاندان ایک خاص قسم کی توہم پرستی کا شکار ہو گیا۔ انہیں یہ وہم ہو گیا کہ جو مرد اس ہیرے کو پہنے گا بدنصیبی اس کا پیچھا نہیں چھوڑے گی اس لئے برطانیہ میں اسے شاہی خاندان کی عورتوں نے ہی پہنا۔ 

ملکہ وکٹوریہ کے بعد سے یہ ہیرا مختلف ملکائوں کے تاج کی زینت بنا۔ پھر 1937 میں ملکہ الزبتھ کے تاج کا حصہ بن گیا۔ پاکستان نے کئی بار برطانیہ سے یہ ہیرا واپس کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان نے کئی بار کوہِ نور ہیرے پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کیا۔ برطانیہ نے کہا کہ اسے ’’آخری معاہدہ لاہور‘‘ (Last Treaty of Lahore) کے تحت حاصل کیا گیا ہے اس لیے واپس نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ’’آخری معاہدہ لاہور‘‘ کیا تھا ؟ اصل میں جب نادر شاہ درانی نے دہلی پر حملہ کیا تو اس وقت محمد شاہ رنگیلا کی حکومت تھی ۔ محمد شاہ رنگیلا نے تاوان کے طور پر جہاں اور بہت کچھ نادر شاہ درانی کے حوالے کیا وہاں کوہ نور ہیرا بھی درانی کو دے دیا۔ نادر شاہ کی موت کے بعد اس کی سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا تو کوہ نور ہیرا اس کے پوتے کی ملکیت میں آ گیا جس نے احمد شاہ درانی کو یہ ہیرا اس شرط پر دے دیا کہ وہ اس کی حمایت کرے گا۔ 

لیکن درانی سلطنت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔ اس لئے شجاع درانی کوہ نور ہیرا لاہور لے آیا جہاں رنجیت سنگھ نے شجاع درانی کو پناہ دے دی لیکن اس کے بدلے میں رنجیت سنگھ نے شجاع درانی سے کوہ نور ہیرا لے لیا۔ یہ 1813 کی بات ہے۔ رنجیت سنگھ نے یہ وصیت کی کہ یہ ہیرا جگن ناتھ مندر میں رکھ دیا جائے ۔ یہ مندر ان دنوں ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر انتظام تھا۔ 1839ء میں رنجیت سنگھ کی موت کے بعد اس کی وصیت پر عمل نہیں کیا گیا۔ 1849ء میں پنجاب پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے کے بعد ’’آخری معاہدہ لاہور‘‘ پر دستخط کئے گئے۔ اس ہیرے کے علاوہ رنجیت سنگھ کے دوسرے اثاثوں پربھی کمپنی نے قبضہ کر لیا۔ معاہدے کا آرٹیکل III یہ کہتا ہے، ’’کوہ نور ہیرا جسے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے شجاع درانی سے لیا تھا وہ لاہور کا مہاراجہ برطانوی ملکہ کے حوالے کر دے گا‘‘۔

کہا جاتا ہے کہ اس ہیرے کو رنجیت سنگھ کے بیٹے دلیپ سنگھ نے برطانوی ملکہ کے حوالے کیا۔ دلیپ سنگھ رنجیت سنگھ کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا جو خود 1854ء میں انگلستان چلا گیا تھا۔ آج کوہ نور ہیرا برطانیہ کے پاس ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ہیرے کی داستان بہت انوکھی اور ناقابل یقین ہے، بہر حال یہ داستان مبنی بر حقیقت ہے اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں۔ کوہ نور ہیرا ایک تاریخی ورثہ ہے جس کی قیمت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ یہ بے مثال ہے، انمول ہے اور اس کا کوئی مقابلہ نہیں، تمام تر لڑائیوں کے باوجود یہ انمول ہیرا قائم رہا تاہم اس کا کچھ حصہ کاٹ دیا گیا تھا۔ اب تک کروڑوں لوگ اس ہیرے کو دیکھ چکے ہیں۔ اس کی وجہ اس کی بے مثال شہرت ہے جو کبھی ختم نہ ہوگی۔  

طیب رضا عابدی


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>