Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

لارنس آف عریبیہ، ایک پُر اسرار کردار

$
0
0

تھامس ایڈورڈ لارنس کو جن ناموں سے پکارا جاتا تھا ان میں سب سے مقبول ’’لارنس آف عریبیہ‘‘ ہے۔ 16 اگست 1888ء کو ویلز میں پیدا ہونے والے اس غیر معمولی فرد نے 19 مئی 1935ء کو وفات پائی۔ اس ایک فرد میں بہت سی صلاحیتیں یکجا تھیں۔ وہ بیک وقت ماہرِآثارِ قدیمہ، فوجی افسر، جاسوس، سفارت کار اور مصنف تھا۔ اسے شہرت پہلی عالمی جنگ کے دوران مشرقِ وسطیٰ میں عسکری حکمت عملی میں انتہائی اہم کردار ادا کرنے پر ملی۔ اپنی سرگرمیوں کا ذکر اس نے اپنی کتاب ’’دی سیون پِلرز آف وزڈم‘‘ میں کیا جس میں ممکن ہے واقعات کو قدرے بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہو لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لارنس نے کس مہارت سے اپنے وقت کی انتہائی طاقت ور مشرقی سلطنت کو مشکل میں ڈالا۔ 15 برس کی عمر میں اسے قدیم نوادرات اور عمارات سے حد درجہ دلچسپی پیدا ہو چکی تھی۔ 

دوران تعلیم اس نے عہدِ وسطیٰ کے عسکری طرزِ تعمیر پر توجہ مرکوز کی، فرانس، شام اور فلسطین میں صلیبی قلعوں پر تھیسس لکھا اور 1910ء میں اسی کی بنیاد پر تاریخ میں آنرز کی ڈگری حاصل کی۔ اس کا تھیسس اس کی موت کے بعد 1936ء میں ’’صلیبی قلعے‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ ایک کالج کی فیلو شپ کے تحت وہ دریائے فرات کے کنارے کرکمیش میں قدیم ہٹیٹی بستیوں کی کھدائی کرنے نکل کھڑا ہوا اور 1911 سے 1914ء تک اس میں مصروف رہا۔ اس دوران فارغ اوقات میں وہ آس پاس کے علاقوں کا جائزہ لیتا، وہاں کی زبان سیکھتا اور لوگوں کے بارے میں جانتا۔ پہلی عالمی جنگ کے شروع ہوتے ہی اس نے ملک کے سامراجی عزائم کی تکمیل کے لیے مصر میں اپنی خدمات پیش کیں۔ 1914ء کے اوائل میں اس کا ایک ’’کارنامہ‘‘ ماہرِ آثارِ قدیمہ کے روپ میں غزہ (فلسطین) سے عقبہ (اردن) تک کے عسکری نقشے تیار کرنا تھا جو ان حالات میں فوری اہمیت اختیار کر گئے۔ 

پہلی عالمی جنگ کے ابتدائی عرصے میں وہ شعبہ نقشہ جات کے ملازم کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ اس کا کام سینائی (مصر) کا عسکری لحاظ سے مفید نقشہ تیار کرنا تھا۔ دسمبر 1914ء میں وہ قاہرہ میں لیفٹیننٹ کے عہدے پر تھا۔ اس وقت ایسے لوگوں کی کمی تھی جو سلطنت عثمانیہ کے زیرانتظام عرب علاقوں کا سفر کر چکے ہوں اور ان سے واقفیت رکھتے تھے۔ اس کام کے لیے غالباً لارنس سے موزوں کوئی فرد نہیں تھا۔ اب لارنس کے ذمے جاسوسی کا کام تھا اور اس نے زیادہ تر برس قیدیوں کے انٹرویوز کرنے، نقشے بنانے اور دشمن کی صفوں میں موجود ایجنٹوں سے حاصل کردہ معلومات کا تجزیہ کرنے میں گزارے۔ مغربی محاذ پر زور دار جنگ جاری تھی اور 1915ء میں لارنس کے دو بھائی فرانس کے محاذ پر اس کی نذر ہو چکے تھے۔ 

عرب علاقوں میں اپنے ملک کے مفادات کے تحفظ کی سرگرمیاں سرانجام دیتے ہوئے ہی اسے عثمانیوں سے بدلہ لینے کا خیال آیا۔ سلطنتِ عثمانیہ جرمنوں کی اتحادی تھی اور اسے زِچ کرنے سے برطانیہ کو فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ دوسری جانب عرب علاقوں میں آزادی کی آرزوئیں انگڑائیاں لے رہی تھیں۔ لارنس نے عرب علاقوں میں آزادی کی تمنا کو فوجی مقاصد کے تحت لاتے ہوئے اور وہاں کے حالات، سیاست، معاشرت اور لوگوں کی استعداد کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور ترکوں کو بے بس کر کے رکھ دیا۔ اس نے دمشق سے مدینہ تک کی ریلوے لائن کو ترکوں کے لیے کسی کام کا نہ چھوڑا۔ بحیرہ احمر کے انتہائی شمال میں عقبہ عرب چھاپہ ماروں کی اولین کامیابی ثابت ہوا اور جولائی 1917ء میں انہوں نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا۔ بعد ازاں عرب لباس میں ترکوں نے اسے پکڑ کر بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا تاہم وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ 

مختلف مہمات میں کامیابی کے بعد اسے لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ جب اکتوبر 1918ء میں عرب افواج دمشق پہنچنے میں کامیاب ہوئیں، لارنس جسمانی اور جذباتی طور پر بہت تھک چکا تھا۔ وہ کئی بار گرفتار ہوا، تشدد کا نشانہ بنا، بھوک کا شکار ہوا۔اسے یوں لگا کہ اس نے جو کیا سب بے کار تھا۔ اس نے واپسی کا فیصلہ کر لیا۔ جنگ کے بعد اس کی کارروائیاں منظر عام پر آنے لگیں اور وہ مقبول ہونے لگا۔ کئی برس بعد وہ عرب امور کے ماہر کے طور پر مشرقِ وسطیٰ واپس گیا۔ وہ اس وقت کے نوآبادیاتی وزیر ونسٹن چرچل کے ماتحت تھا۔ کچھ عرصہ بعد اس نے اس ملازمت کو چھوڑا اور نام بدل کر اگست 1922ء میں رائل ائیرفورس میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس کی دوستی جارج برنارڈ شا جیسے بڑے نام کے ساتھ ساتھ بھی رہی۔ 

لارنس قبائلی علاقے میران شاہ میں بھی مقیم رہا۔ اس نے افغانستان کے حاکم کو غیر مستحکم کرنے کا کام کیا۔ برطانیہ چاہتا تھا کہ شاہ امان اللہ خان کے خلاف پراپیگنڈہ اور سازشیں کر کے اس کی حکومت کا خاتمہ کیا جائے کیونکہ شاہ انقلابی اور جدید نظریات رکھتا تھا اور اس کا جھکاؤ سوویت یونین کی جانب تھا۔ لارنس ایک طلسماتی سا کردار بن چکا ہے۔ اس پر بہت کچھ لکھا گیا اور 1962ء میں اس کی زندگی سے ماخوذ معروف فلم ’’لارنس آف عریبیہ‘‘ بنی۔ تاہم تیسری دنیا میں اس کی حیثیت ایسے شخص کی ہے جس نے زیادہ تر جنگوں اور تقسیموں کو جنم دینے والی منفی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ 

رضوان عطا


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>