اقوامِ متحدہ اور عالمی قوتوں نے لیبیا میں مسلح دستوں کے دارالحکومت طرابلس پر چڑھائی کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق حکومتی کی حامی فوجوں اور باغیوں کے رمیان طرابلس کے قریب جھڑپیں جاری ہیں۔ دنیا کے امیر ترین جی سیون ممالک نے لیبیا کے باغیوں سے کہا ہے کہ وہ طرابلس پر چڑھائی فوراً روک دیں۔ اقوامِ متحدہ نے بھی اسی طرح کا اعلان کیا ہے۔ اپنے آپ کو لیبیئن نیشنل آرمی (العسكري القوی فی ليبيا) کہلانے والے باغی مسلح دستوں کے سربراہ خلیفہ حفتر نے طرابلس پر چڑھائی کا حکم دیا تھا۔
لیبیا میں یہ بد امنی اس پس منظر میں پیدا ہوئی جب اقوامِ متحدہ کی لیبیا سے متعلق ایک کانفرنس ہونے جارہی ہے جس میں لیبیا میں ممکنہ نئے انتخابات سے متعلق فیصلہ ہونا ہے۔ طرابلس میں اس وقت بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت قائم ہے اور اس حکومت کو اقوامِ متحدہ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ طرابلس میں اقوامِ متحدہ کی تعینات افواج کو جنگ کی تیاری کا حکم دے دیا گیا ہے۔ سنہ 2011 میں کرنل قذافی کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد سے لیبیا میں مسلسل خانہ جنگی یا شورشیں چلی آرہی ہے۔
لیبیا کے زمینی حقائق کیا ہیں؟ لیبیئن نیشنل آرمی کے سربراہ حفتر اپنے زیرِ کمان افواج کو حکم دیا ہے کہ وہ طرابلس پر چڑھائی کر دیں۔ اس وقت اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینٹونیو گُتریس طرابلس میں موجود تھے۔ جنرل حفتر نے مسٹر گُتریس سے اس وقت بات کی تھی جب وہ بن غازی میں تھے۔ اطلاعات کے مطابق انھوں نے کہا تھا کہ ان کی فوج اُس وقت تک اپنی کارروائی نہیں روکے گی جب تک دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو جاتا ہے۔ لیبیئن نیشنل آرمی نے کارروائی کر کے طرابلس کے جنوب میں سو کلو میٹر کے فاصلے پر ایک قصبے پر قبضہ کر لیا تھا۔
اب خبریں آرہی ہیں کہ جنرل حفتر کے دستوں نے طرابلس کے ایئر پورٹ پر قبضہ کر لیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ ایئر پورٹ سن 2014 سے بند پڑا ہوا ہے۔ طرابلس کے مشرق میں مصراتہ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہاں سے حکومت کی وفادار فوج کو دارالحکومت کے دفاع کے لیے روانہ کر دیا گیا ہے۔ حکومت کی وفادار فوج نے کہا ہے کہ اُس نے باغیوں کے کئی ارکان کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس برس کے آغاز میں باغیوں نے لیبیا کے جنوب میں واقع تیل کے کنوؤں پر قبضہ کر لیا تھا۔
ردِّعمل کیا ہے؟
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل مسٹر گُتریس نے ایک ٹویٹ میں بہت ’افسوس اور تشویش کے ساتھ‘ امید کا اظہار کیا ہے کہ دارالحکومت کو میدانِ جنگ بننے سے بچانے کے ابھی بھی رستے موجود ہیں۔ جی 7 کے ممالک نے بھی خانہ جنگی کی نئی لہر پر ردِّعمل کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ فوجی کاروائی کو روک دیا جائے۔ ’ہم لیبیا میں فوجی کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں اور اقوام متحدہ کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں ہم خطے کی تمام ممالک سے کہتے ہیں کہ لیبیا میں انتخابات اور ایک پائیدار استحکام کے لیے مدد کریں۔‘ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے ایک بند دروازے میں اجلاس کیا تھا۔ ادھر روس میں وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ کریملن جنرل حفتر کی کاروائی کی حمایت نہیں کرتا ہے۔ ’لیبیا کے لیے پرامن سیاسی حل تلاش کرنا چاہیے۔‘
اقوام متحدہ کے ایک خصوصی ایلچی عسان سلامے نے کہا ہے کہ 14 سے لے کر 16 اپریل کو ہونے والی کانفرنس میں ابھی تک وقت ہے تاہم حالات کی ابتری کی صورت میں دوسرے اقدام لینے کی مجبوری ہو سکتی ہے۔ جنرل حفتر کے دستوں کو ملی جلی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ جنوب میں ان کی حامی فوج کو کامیابی ملی ہے لیکن مغرب میں انھیں پسپائی ہوئی ہے۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس وقت انھیں اپنا سیاسی قد بنانے میں کتنی کامیابی حاصل ہوئی ہے اور آیا وہ طرابلس پر واقعی قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ لیبیا میں کرنل قضافی کے خلاف بغاوت پر واپس آئے تھے۔ اس کے بعد وہ شوترشوں سے بھرے ہوئے لیبیا کے سب سے زیادہ طاقتور جنرل کے طور پر اُبھرے۔
دنیا بھر میں ان کے خلاف مذمتی بیانات کے باوجود انھیں خطے کے کئی ممالک کی حمایت ملی ہے جن میں مصر اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ لیبیا میں سیاسی حل کی تمام کوششیں اب تک ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ جنرل حفتر نے سنہ 1969 میں کرنل قذافی کو اقتدار پر قبضہ کرنے میں مدد دی تھی۔ اس کے بعد ان کے قذافی سے تعلقات خراب ہو گئے اور وہ امریکہ چلے گئے۔ وہ سنہ 2011 میں واپس آئے اور قذافی کی مخالف فوج کے کمانڈر بن گئے۔ گذشتہ برس دسمبر میں انھوں نے طرابلس میں وزیراعظم فیاض السراج سے ملاقات کی تھی لیکن کانفرنس میں ان سے سرکاری طور ملاقات سے انکار کر دیا تھا۔ ا