کچھ عرصہ پہلے تک چین کی ترقی کو بے ضرر کہا جاتا تھا، خیال تھا کہ معاشی ترقی چین کو اپنے سیاسی نظام میں تبدیلی پر مجبور کرے گی اور اس کا آمرانہ نظام لبرل نظام میں بدل جائے گا اور چین ایک ذمہ دار عالمی حصہ دار بن جائے گا۔ لیکن اب دن بدن چین کو ایک خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور ایسے خدشات بڑھ رہے ہیں کہ امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی دونوں طاقتوں کے درمیان ایک ایسی جنگ کی صورت میں بدل سکتی ہے جس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔ امریکہ میں ایک ایسے ماڈل کا ذکر ہو رہا ہے جو یونانی تاریخ دان توسیڈائیڈز کے نام کی مناسبت سے اسے تو سیڈائیڈز ٹریپ کہا جا رہا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے انٹرنیشنل افیئرز کے پروفیسر گراہم ایلسن کی کتاب‘ ڈیسٹائنڈ فار وار : کین امریکہ اینڈ چائنا آوائیڈ ٹوسیڈائیڈز ٹریپ’(Destined For War: Can America and China Avoid Thucydides Trap؟) ایک ایسی کتاب کی شکل دھار چکی ہے جو ہر پالیسی ساز، ماہر تعلیم اور صحافی کو ضرور پڑھنی چاہیے۔ پروفیسر گراہم نے مجھے بتایا کہ توسیڈائیڈز ٹریپ ایک ایسے خطرناک عمل کا نام ہے جس میں ایک پرانی طاقت یہ خطرہ محسوس کرتی ہے کہ ابھرتی ہوئی طاقت اس کی جگہ لے لے گی۔ قدیم یونان میں جب سپارٹا کو ایتھنز سے خطرہ محسوس ہوا تو جنگ ہوئی۔ انیسویں صدی میں برطانیہ کو جرمنی سے خطرہ محسوس ہوا اور آج چین امریکہ کو چیلنج کر رہا ہے۔
پروفیسر ایلسن نے پانچ سو برس کی تاریخ کو چھان کر سولہ ایسی مثالوں کی نشاندہی کی ہے جس میں ابھرتی ہوئی طاقتوں نے پہلے سے موجود طاقت کا سامنا کیا اور سولہ میں سے بارہ کا نتیجہ جنگ کی صورت میں نکلا۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ اور چین کی رقابت عالمی تعلقات کا ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ تو کیا امریکہ اور چین توسیڈائیڈز ٹریپ سے بچ سکتے ہیں یا یہ محض ایک علمی بحث ہے ؟ چین کے مشہور نیول ماہر اور پیکنگ یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف اوشن ریسرچ کے پروفیسر ہو بو نے بتایا کہ طاقت کے موجودہ توازن میں توسیڈائیڈز ٹریپ کی تھیوری قابل یقین نہیں ہے۔ پروفیسر ہو بو کہتے ہیں کہ چین کی ترقی اچھی ہے لیکن اس کی موجودہ طاقت کا امریکی طاقت سے کوئی موازنہ ہی نہیں ہے اور چین زیادہ سے زیادہ بحرالکاہل میں کسی حد تک امریکہ کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ بحرالکاہل میں دونوں ممالک کا آمنا سامنا دونوں طاقتوں کے مابین جنگ کا باعث بن سکتا ہے۔
امریکہ کے نیول وار کالج کے سٹرٹیجی پروفیسر اینڈریو ارکسن کا کہنا ہے کہ چین کی موجودہ بحری طاقت کوئی زیادہ متاثر کن نہیں ہے لیکن وہ بہتر ہو رہی ہے۔ چین ایسے جدید جنگی بحری جہاز تیار کر رہا ہے جو یورپی جنگی جہازوں کی صلاحیت کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں چین کی بحری حکمت عملی دن بدن بااعتماد ہوتی جا رہی ہے۔ چین کی بحری طاقت امریکہ کو چین سے دور رکھنے کی پالیسی کے گرد گھومتی ہے۔ بیجنگ چاہتا ہے کہ امریکہ کی چین میں مداخلت کو مہنگا بنایا جا سکے۔ مثال کے طور پر چین چاہتا ہے کہ اگر وہ تائیوان میں طاقت کا استعمال کرتا ہے اور امریکہ چینی پانیوں میں گھسنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے احساس ہو کہ اس دراندازی کی اسے بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے۔ لیکن امریکہ اور چین کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کا تعلق کچھ شخصیات سے بھی ہے۔
کونسل آن فارن ریلیشنز کی ایشیا سٹڈیز سے تعلق رکھنے والی الزبتھ اکانومی نے بتایا کہ صدر شی جن پنگ چین کے ایسے لیڈر کے طور پر سامنے آئے ہیں جو عالمی امور میں چین کے بڑے کردار کی خواہش کی علامت ہیں۔ الزبتھ اکانومی کے مطابق عالمی اداروں کو چینی اقدار کے مطابق ڈھالنے کے حوالے سے صدر شی کی کوششوں کو زیادہ توجہ نہیں ملی ہے۔ امریکہ بھی اپنی پوزیشن بدل رہا ہے۔ امریکہ چین اور روس کو ایسی طاقتیں تصور کرتا ہے جو اپنے نظریے پر غور کرنے پر تیار ہیں۔ امریکی فوج چین کو اپنا حریف تصور کرتی ہے۔ لیکن امریکہ میں ایک اور رجحان بھی ہے جو ابھی اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے۔
واشنگٹن میں کچھ لوگوں نے روس کی طرح، چین کے ساتھ بھی سرد جنگ کی بات کی۔ لیکن امریکہ اور سوویت یونین کے مابین سرد جنگ کے برعکس چین کے ساتھ سرد جنگ کا ایک ایسا پہلو بھی ہے جو سوویت یونین کے ساتھ نہیں تھا۔ چین اور امریکہ کی معیشتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں جس سے سرد جنگ کی ایک نئی جہت سامنے آتی ہے اور وہ ہے ٹیکنالوجی کے سیکٹر میں برتری۔ امریکہ اور چین کے مابین ہواوے ٹیلی کمیونیکیشن کا تنازعہ اس کی واضح نشاندہی کرتا ہے۔ امریکہ ہواوے ٹیکنالوجی کو اپنے کمیونیکیشن نیٹ ورک میں استعمال ہونے پر پابندیاں عائد کر رہا ہے اور اپنے اتحادیوں پر بھی دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کریں۔
امریکہ کی ہواوے ٹیکنالوجی کے ساتھ اس کا تنازعہ اس امریکی سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ چین کے ٹیکنالوجی سیکٹر کو اپنے حقوق دانش اور رازوں کی چوری کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ یہ سوچ کہ چین اگلے عشرے میں ایک غالب عالمی طاقت بننے کے لیے کوشاں ہے، اس کا انحصار چینی ترقی کی رفتار پر ہے۔ اس طرح کے اشارے ہیں کہ چونکہ آمریت کے سیاسی نظام کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی معاشی ترقی شاید ڈگمگا جائے۔ اگر چین کی معاشی ترقی سست ہو جائے تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صدر شی جن پنگ اپنے منصوبوں پر عمل پیرا ہونے میں کامیاب ہوں گے جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ اس سے صدر شی کی حکمرانی کے قانونی جواز پر سوال اٹھیں گے جس پر قابو پانے کے لیے وہ قوم پرستی کے جذبات کو ابھارنے یا عالمی سطح پر زیادہ جارحانہ انداز اپنا سکتے ہیں۔
امریکہ اور چین کی رقابت حقیقی ہے اور یہ ختم نہیں ہو گی۔ کوئی ایک تزویراتی غلطی بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ دونوں ممالک ایک تزویراتی دوراہے پر کھڑے ہیں۔ یا تو دونوں کو ایک دوسرے کے خدشات کو دور کرنے کا طریقہ ڈھونڈنا ہو گا ورنہ دونوں ملک معاندانہ تعلقات کی جانب بڑھیں گے ۔ یہاں تو سیڈائیڈز ٹریپ واپس آ جاتا ہے ۔ لیکن پروفیسر ایلسن اس بات پر زور دیتے ہیں کہ توسیڈائیڈز ٹریپ میں پھنسنا قسمت میں لکھا ہوا نہیں ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی کتاب سفارت کاری کے بارے میں ہے قسمت کے بارے میں نہیں ہے ۔