نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے اپنے ملک کی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے حال ہی میں 50 مسلمانوں کی شہادت کے واقعے سے متعلق جو خطاب کیا وہ نہ صرف تاریخی بلکہ ایک ایسا موثر خطاب تھا جس نے براہ راست تمام صاحب احساس انسانوں کے دلوں پر اپنا نقش چھوڑ دیا، اس تقریر سے وزیر اعظم کی شخصیت ایک ایسی رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آئی جو نہ صرف واضح سوچ رکھتی ہیں بلکہ مکمل طور پر بے غرض اور قابل رشک فہم و فراست کی مالک ہیں، اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں کہ اس سے قبل کسی وزیر اعظم نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف اس قدر فکر انگیز حکمت عملی پیش نہیں کی۔ اگر ان کے خطاب کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات نمایاں ہوتی ہے کہ اپنے اس خطاب میں وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے سیاستدانوں، عوام اور ذرائع ابلاغ سمیت ہر طبقے کو نہایت اہم پیغامات دئیے ہیں۔
وزیر اعطم نیوزی لینڈ کا پہلا پیغام، مسجد میں گھس کر نہتے مسلمانوں کو قتل کرنے والے شخص کی اس کارروائی کو انہوں نے انتہائی دوٹوک الفاظ میں دہشت گردی قرار دیا، اس شخص کو مہذب معاشرے کیلئے ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے اسے مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے کہا کہ میں اس کا نام نہیں لوں گی کیونکہ وہ اس قابل ہی نہیں کہ عوام میں اس کی کوئی شناخت ہو، انہوں نے کہا کہ اس دہشت گرد نے جو سفاکانہ کارروائی کی اس سے وہ کئی مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا، ان میں سے ایک مقصد شہرت حاصل کرنا بھی تھا خواہ یہ بدنامی ہی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ آپ میری زبان سے کبھی اس شخص کا نام نہیں سنیں گے، وہ ایک مجرم، انتہا پسند اور ایک دہشت گرد ہے اور اس کے سوا کچھ بھی نہیں، یہی وجہ ہے کہ میری گفتگو میں کبھی اس کا نام میری زبان پر نہیں آئے گا، وہ بے نام ہی رہے گا۔
وزیر اعظم جیسنڈا نے پرعزم لہجے میں مزید کہا کہ ہم اپنے ملک میں اس شخص کو کچھ نہیں دیں گے، یہاں تک کہ اسے اس کا نام بھی نہیں دیں گے۔ پارلیمنٹ سے اپنے فکر انگیز اور عزم و استقلال سے معمور خطاب میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے دوسرا اہم پیغام دیتے ہوئے اپنی قوم سے کہا کہ اس دلخراش واقعے کا ذکر کرتے ہوئے صرف ان لوگوں کے نام لئے جائیں جو اب موت کی آغوش میں جا چکے ہیں، لیکن کسی بھی صورت میں اس درندہ صفت شخص کا نام نہ لیں جس نے شہرت کی ہوس یا کسی اور منفی جذبے کے تحت اتنی بڑی تعداد میں بے گناہ انسانوں کو قتل کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں تمام ہم وطنوں سے درخواست کرتی ہوں کہ ایسے سنگدل مجرم کا نام لینے کے بجائے کہ جس نے اتنے سارے زندہ انسانوں کی زندگی کے چراغ گل کر دئیے ان بے خطا انسانوں کے نام لئے جائیں جو اس کی درندگی کا نشانہ بن کر ہم سب سے بہت دور جا چکے ہیں۔
جیسنڈا آرڈرن کے خطاب میں تیسرا پیغام ان کا یہ وعدہ تھا کہ اس غمناک واقعے سے جو لوگ براہ راست یا بالواسطہ طور پر متاثر ہوئے ان سب کے ساتھ جلد از جلد انصاف کیا جائے گا، عدالتی کارروائی فوری شروع کرنے کیلئے ملکی قوانین کو بلا تاخیر متحرک کیا جائے گا۔ اپنی تقریر میں وزیر اعظم نیوزی لینڈ نے چوتھا پیغام جدید دور کے ذرائع ابلاغ کو دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس المناک واقعے پر سوشل میڈیا نے جو کردار ادا کیا ہم اس کا پوری توجہ کے ساتھ جائزہ لیں گے، اس کے ساتھ ہی اس بات پر بھی غور کیا جائے گا کہ ہم اس کے بارے میں کیا اقدامات کر سکتے ہیں، ہم اپنے دوست ممالک کے ساتھ مل کر یہ بھی دیکھیں گے کہ بین الاقوامی سطح پر سوشل میڈیا نے کیا کردار ادا کیا، وزیر اعظم جیسندا کا واضح اشارہ اس جانب تھا کہ قاتل 17 منٹ تک اس خونریزی کو فیس بک پر نشر کرتا رہا، سوشل میڈٖیا کمپنیوں نے اس ویڈیو کو فوری نہیں ہٹایا بلکہ کچھ دیر بعد یہ کام کیا، لیکن اس ویڈیو کو دوبارہ اپ لوڈ کر کے اسی روز ٹویٹر اور یوٹیوب کو فراہم کر دیا گیا۔
وزیر اعظم نیوزی لینڈ نے مزید کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انسانوں کو تقسیم کرنے اور ان کے درمیان نفرت پھیلانے کا عمل کئی عشروں سے جاری ہے، لیکن اس عمل میں جو جدید طریقے، آلات اور انتظامی سہولتیں اب میسر ہیں وہ پہلے نہیں تھیں، انہوں نے کہا کہ ہم متعصبانہ اور انسان دشمن مواد کو پھیلانے والے ذرائع کو کھلی چھوٹ نہیں دے سکتے، یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں، یہ نہیں ہو سکتا کہ ان ذرائع پر خواہ کچھ بھی نشر ہوتا رہے ہم ان کے بارے میں خاموش رہیں، وزیر اعظم نے کہا کہ ہم اس بات کو کبھی درست نہیں سمجھ سکتے کہ جو کچھ ان ذرائع ( سوشل میڈیا) پر شائع یا نشر ہو رہا ہے وہ ان ذرائع کی ذمے داری نہیں ہے.
وزیر اعظم نے کہا کہ ’’ ایسے مواد کو شائع اور نشر کرنے والے جان لیں کہ وہ پبلشر ہیں کوئی پوسٹ مین نہیں کہ ہر بات کی ذمے داری سے بری ہو جائیں، ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ آپ منافع تو سارا لے جائیں لیکن کوئی ذمے داری قبول نہ کریں‘‘ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے یہ بات کہہ کر دراصل ان لوگوں کو چیلنج دیا ہے جن کا موقف ہے کہ تمام ذرائع ابلاغ کو خواہ ان کی نوعیت کچھ بھی ہو ہر قسم کا مواد شائع اور نشر کرنے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے۔ جیسنڈا آرڈرن نے اپنی تقریر میں جو کچھ کہا اس کی تائید کرتے ہوئے انالیسا میریلی نے نیوز ویب سائٹ ’’ کوارٹز‘‘ میں شائع اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ 11 ستمبر 2001 سے قبل بہت کم لوگوں نے القاعدہ اور اسامہ بن لادن کا نام سنا تھا، اسی طرح 2013 کے دوران بوسٹن میں میراتھن ریس پر حملہ کرنے والے جوہر سارنیف کا نام بھی کوئی نہیں جانتا تھا، البتہ جب اس نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر بے قصور شہریوں کو نشانہ بنایا تو دنیا اس کے نام سے آشنا ہو گئی.
انہوں نے مزید لکھا کہ ناروے کے دہشت گرد اینڈرز بریوک نے 2011 میں 80 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، اس شخص کو اور اس کے سفاکانہ جرم کو بڑے پیمانے پر شہرت ملی، اگر ایسا نہ ہوتا تو اس شخص کو جو ایک خطرناک مجرم تھا نہ یوں شہرت ملتی اور نہ ہی وہ سفید فام نسل پرست دہشت گردوں کیلئے ایک قابل تقلید مثال بن کر اس منفی سوچ اور طرز عمل کو پھیلانے میں مددگار بنتا، ہو سکتا ہے اینڈرز بریوک سے متاثر ہونے والے متعصب سفید فام لوگوں میں وہ مردود شخص بھی شامل ہو جس نے نیوزی لنڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں مساجد پر حملہ کر کے 50 بے گناہ انسانوں کی زندگی کے چراغ گل کر دئیے۔
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے دہشت گردی جیسے نازک ترین اور خوفناک مسئلے پر پورے اعتماد، یقین اور عزم کے ساتھ دوٹوک انداز میں گفتگو کی، یہی نہیں بلکہ انہوں نے اس لعنت کی پرزور مذمت بھی کی ، اس کے علاوہ انہوں نے عالمی برادری اور تمام معاشروں کو بھی بیدار کرنے کی کوشش کی ہے ، ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ دہشت گردی کا مجرم خواہ کسی رنگ ، کسی نسل اور کسی عقیدے کا پیروکار ہو اس کی مذمت میں کسی مصلحت کا شکار نہ ہوا جائے ، ایسے ہر انسان دشمن شخص اور اس کی نفرت انگیز حرکت کی شدید ترین الفاظ میں مذمت عالمی برادری کا اولین فریضہ ہونا چاہیے ۔