چند روز پہلے گومگو کی کیفیت کے بعد طویل مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان کو آئی ایم ایف کی طرف سے نرم شرائط کے تحت 6 ارب ڈالر کا بیل آئوٹ پیکیج ملنے کی خوشخبری سنائی گئی تاہم یہ تان اس وقت ٹوٹ گئی جب گزشتہ روز اس پیکیج کی روشنی میں مطلوبہ کڑی شرائط میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے آئیں۔ ان میں بجلی کے ٹیرف میں مزید 30 فیصد، حالیہ خسارے کے بجٹ کو فاضل بجٹ میں تبدیل کرنے کیلئے ویلیو ایڈڈ اور جی ایس ٹی میں اضافے سمیت بہت سے دیگر مطالبات سامنے آئے۔ یہ ایک انتہائی تشویشناک صورت حال ہے اس کے نتیجے میں مہنگائی کا گراف تیزی سے بڑھتا دکھائی دے رہا ہے جو معاشی مسائل کے شکار عوام کیلئے مزید کرب کا باعث بنے گا.
لہٰذا ضروری ہےکہ آئندہ ماہ ہونے والے سمجھوتے سے پہلے متذکرہ شرائط تبدیل کرانے کیلئے مزید گفت و شنید کی جائے آئی ایم ایف سے پاکستان کی وابستگی 60 سالہ پرانی ہے اور ان برسوں میں ہونے والے کل 21 معاہدوں میں سوائے 1960 کی دہائی کے، باقی عرصہ کے دوران ملنے والے قرضوں سے قابل ذکر فائدہ نہ اٹھایا جا سکا۔ موجودہ حالات میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین اور قطر سے ملنے والے قرضوں کے باوجود آئی ایم ایف اب بھی حکومت کو اپنی ضرورت دکھائی دے رہا ہے۔ یہ صورت حال اس لحاظ سے قومی معیشت اور عوام الناس کیلئے اس لئے مزید مشکل کا باعث ہے.
ایک طرف قرضوں کے بوجھ میں اضافہ اور دوسری طرف مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی سانس بھی نہیں لینے دے رہی۔ ادھر بجلی و گیس چوری، بدعنوانی کے باعث معیشت کا پہیہ جاری رکھنے کیلئے اور توانائی کی ضرورت پوری کرنے کیلئے آئی ایم ایف نے اسٹیٹ بینک سے قرضے لینے پر پابندی کی بھی شرط عائد کی ہے جس سے آنے والے گرمی کے موسم میں لوڈ شیڈنگ کے سر اٹھانے کا احتمال ہے۔ یہ ایک اچھا منظر دکھائی نہیں دے رہا، اس صورت حال کے پیش نظر حکومت کو اپنی حکمت عملی پر دو بارہ غور کرنا چاہئے اور قرضوں کیلئے قومی مفادات کے خلاف کوئی شرط قبول نہیں کرنی چاہیے۔