امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے خبر دی ہے کہ وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتیکی ٹیم نے پچھلے سال ستمبر میں پینٹاگان سے کہا تھا کہ وہ ایران پر حملے کا منصوبہ تیار کرے۔ ایسا اس وقت ہوا تھا جب ایران سے وابستہ شدت پسندوں نے بغداد کے اس علاقے پر راکٹ فائر کیے تھے جہاں امریکی سفارت خانہ واقع ہے۔ امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگان کو یہ ہدایت نیشنل سکیورٹی کونسل نے دی تھی جس کے سربراہ جان بولٹن ہیں۔ اخبار نے حالیہ اور سابقہ ملازمین کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس سے پینٹاگان اور امریکی محکمۂ خارجہ کے حکام میں سخت تشویش پیدا ہو گئی تھی۔ پینٹاگان نے اس حکم پر عمل کر کے مطلوبہ منصوبہ پیش کر دیا تھا، لیکن یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آیا ایران پر فضائی حملے کے مختلف منصوبوں کی تفصیل وائٹ ہاؤس کو پیش کی گئی تھی یا نہیں اور آیا صدر ٹرمپ اس بارے میں جانتے تھے۔
وال سٹریٹ جرنل نے لکھا ہے کہ وائٹ ہاؤس کی اس ہدایت سے کچھ ہی دن پہلے چھ ستمبر کو بغداد کے سفارتی زون میں تین مورٹر پھینکے جانے کا واقعہ پیش آیا تھا۔ یہ مورٹر ایک خالی جگہ پر گرے تھے اور ان سے کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا تھا۔ اس کے دو دن بعد نامعلوم جنگجوؤں نے عراقی شہر بصرہ میں امریکی قونصل خانے کے قریب تین راکٹ داغے، تاہم اس سے بھی کوئی قابلِ ذکر نقصان نہیں ہوا تھا۔ امریکی محکمۂ خارجہ نے اس خبر پر کوئی تبصرہ کیا، البتہ اس کا کہنا ہے کہ پینٹاگان صدر کو مختلف قسم کے خطرات سے نمٹنے کے منصوبے پیش کرتا رہتا ہے۔ نیشنل سکیورٹی کونسل کے ترجمان گیرٹ مارکیز نے کہا کہ ان کا ادارہ حملوں کے بعد ہر قسم کے ردِ عمل کا جائزہ لیتا رہتا ہے۔
وال سٹریٹ جرنل نے لکھا ہے کہ یہ معلوم نہیں کہ آیا یہ منصوبہ صدر ٹرمپ کو بھی پیش کیا گیا تھا، یا یہ کہ ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی ٹھوس منصوبہ بندی ہوئی تھی۔ جان بولٹن اس سے قبل صدر جارج بش کی انتظامیہ میں بھی کام کر چکے ہیں اور وہ اس وقت عراق پر حملے کے بڑے حامی تھے۔ وہ ایران کے بھی سخت ناقد ہیں اور کھلے عام وہاں حکومت تبدیل کرنے کی بات کرتے رہتے ہیں۔ 70 سالہ بولٹن کے علاوہ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ میں ایران کے کئی اہم ناقد موجود ہیں۔ وزیرِ خارجہ مائئک پومپیو نے گذشتہ ہفتے قاہرہ کی یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک یہ بات سمجھتے ہیں کہ ہم آیت اللہ جیسے لوگوں کا مقابلہ کرتے ہیں نہ کہ ان کے نخرے اٹھاتے ہیں۔
اس کے علاوہ جنوری ہی میں انھوں ایران کو خبردار کیا تھا کہ خلائی جہاز نہ لانچ کرے اور الزام لگایا تھا کہ یہ دراصل میزائل ٹیکنالوجی کا تجربہ کرنے کا بہانہ ہے۔ مائیک پومپیو سابق فوجی ہیں اور مشرقِ وسطیٰ کے حالیہ دورے کے دوران انھوں نے کئی بار ایران کا مقابلہ کرنے کی بات کی ہے، تاہم فوجی کارروائی کا ذکر نہیں کیا۔ بولٹن سے پہلے نیشنل سکیورٹی کونسل کے سربراہ ایچ آر میک ماسٹر تھے، جنھوں نے ایران کے خلاف جنگ کا نیا منصوبہ تیار کرنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم اس میں اس منصوبے میں اس قسم کی مخصوص فضائی کارروائی جیسی کوئی چیز شامل نہیں تھی جس طرح کے حملے کی منصوبہ بندی کرنے کی ہدایت جان بولٹن نے پینٹاگان کو دی تھی۔