Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

حکومت بے لگام سوشل میڈیا سے خوفزدہ کیوں؟

$
0
0

سوشل میڈیا شاید اس نیت سے تخلیق کیا گیا کہ بلا رنگ و نسل و مذہب و ملت، کرہ ارض کو اصلی گلوبل ولیج بنا دے گا۔ ہم اپنے دکھ سکھ ریئل ٹائم میں بانٹنے کے قابل ہو جائیں گے بلکہ ان گنت مشترکہ مسائل کے درجنوں حل بھی ڈھونڈھ سکیں گے۔ شاید پہیے کی ایجاد کے بعد سب سے اہم ایجاد انٹرنیٹ ہے۔ سوشل میڈیا نے لوگوں کی زباں بندی کو ہمیشہ ہمیشہ کےلیے کالعدم کر دیا ہے، اب خبر پر خبر کے ٹھیکیداروں کی اجارہ داری ختم ہو چکی ہے۔ کوئی میرا مضمون چھاپنے سے انکار کرے گا تو میں اسے فیس بک پر ڈال دوں گا۔ جن ریاستوں میں سوشل میڈیا کو سائبر زنجیر پہنانے کی کوشش کی گئی، وہیں کے دس پندرہ سال کے بچوں نے ان زنجیروں کو توڑ کر رکھ دیا۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس پر کوئی بھی اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کر سکتا ہے۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس کے منفی استعمال بھی سامنے آئے ہیں۔ جعلی اکاؤنٹس کی بھرمار سے مسائل نے جنم لیا، کئی خواتین مردوں کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر زندگیاں گنوا بیٹھیں۔ حال ہی میں سابق ڈی آئی جی گلگت بلتستان کے خلاف ایف آئی اے نے مقدمہ درج کیا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے سابقہ بیوی کی تصاویر فیس بک پر ڈالی ہیں۔ اسی طرح متعدد واقعات ہیں جو معاشرے کے لیے ناسور بنے۔ ایف آئی اے کی رپورٹس کے مطابق سائبر کرائم سیل میں سب سے زیادہ شکایات جنسی ہراسانی کی موصول ہوئی ہیں۔ رواں سال اس ادارے کو 2,295 شکایات موصول ہوئیں، 255 مقدمات درج کیے گئے اور 209 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ توہین مذہب اور نفرت انگیز مواد پھیلانے پر سزائیں بھی سنائی گئیں۔ رواں سال سائبر کرائم کی شرح ماضی سے زیادہ ہے۔

دنیا بھر میں حکومتوں کے اقدامات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب سے بڑا خطرہ سوشل میڈیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے اسے بین کر رکھا ہے تو امریکا میں مڈٹرم الیکشن کے دوران فیس بک کے 30 اور انسٹاگرام کے 85 اکاؤنٹس بند کر دیئے گئے، ان اکاؤنٹس پر الزام یہ عائد کیا گیا کہ یہ انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو رہے تھے جبکہ یہ روسی اور فرانسیسی زبانوں میں تھے۔ حال ہی میں پاکستان میں چلنے والی احتجاجی لہر کے پیچھے بھی سوشل کا ہاتھ بتایا جاتا ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری کے مطابق اشتعال انگیزی پھیلانے والے زیادہ اکاؤنٹس بھارت اور افغانستان سے آپریٹ ہوتے رہے ہیں۔ کسی حد تک حکومت کا الزام بھی درست ہے کیونکہ ٹی وی چینلز اور اخبارات تو حکومت کے کنٹرول میں تھے جنہوں نے اس آسیہ مسیح کیس کی سماعت سے فیصلہ آنے تک سپریم کورٹ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کوئی خبر نہیں دی۔ سوشل میڈیا پر زیادہ شور تب مچا جب وزیراعظم نے خود ٹی وی پر اپنے خطاب میں دھمکی آمیز لہجے میں مظاہرین کو چھوٹا طبقہ کہا۔ انہوں نے مظاہرین کی طرف سے کی گئی تقاریر کو بھی اپنے الفاظ میں بیان کر دیا وگرنہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ کس نے کیا کہا۔

اس سے پہلے ایک ریاستی ادارے کی جانب سے ٹوئٹر اکاؤنٹس کی ایک فہرست جاری کی گئی تھی جنہیں مختلف حوالوں سے تنقید کرنے پر واچ لسٹ میں رکھا گیا ہے۔ سوشل میڈیا کی طاقت پر حکومت میں آنے والی پی ٹی آئی اب خود اسی سوشل میڈیا سے خوفزدہ ہے۔ یہ اس بے لگام گھوڑے کو’’ریگولیشن‘‘ کے کھونٹے سے باندھنا چاہتی ہے۔ یہ چاہتی ہے کہ اس کے ہر سیاہ و سفید کو ’’سب اچھا ہے‘‘ کے پیرائے میں دیکھا جائے، ظلمت کو ضیاء، صرصر کو صبا، پتھر کو گْہر، دیوار کو دَر، کرگس کو ہُما دکھایا جائے، بے حال عوام کو خوشحال لکھا جائے، ویران گلیوں، سنسان راستوں، اجڑے چمن میں ہریالی ہی ہریالی پیش کی جائے۔ حکومت سوشل میڈیا کو ضرور واچ کرے۔ توہین آمیز، نفرت انگیز مواد کو ضرور روکے مگر تنقید سننے اور برداشت کرنے کا جگرا بھی پیدا کرے کیونکہ دھونس اور دھوکے سے دبائی گئی آوازیں ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوئی ہیں۔

اظہر تھراج

بشکریہ ایکسپریس نیوز اردو
 


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>