شام کی سات سالہ خانہ جنگی کی وجہ سے تقریباﹰ چار سو بلین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ اس تنازعے کی وجہ سے ساڑھے تین لاکھ سے زائد انسانی جانیں بھی ضائع ہو چکی ہیں جبکہ لاکھوں شامی مہاجرت پر بھی مجبور ہو چکے ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ شامی خانہ جنگی کی تباہ کاریوں کی وجہ سے گزشتہ سات برسوں کے دوران قریب چار سو بلین ڈالر کا مالی نقصان ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق وسیع پیمانے پر ہونے والی اس تباہی کے تدارک کے لیے اب کئی سال درکار ہوں گے۔
یہ اعداد و شمار شام کے ہمسایہ ملک لبنان میں ہوئی ایک عالمی کانفرنس کے موقع پر جاری کیے گئے ہیں۔ اس دو روزہ کانفرنس کا اہتمام اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی کمیشن برائے مغربی ایشیا ESCWA نے کیا، جس میں پچاس کے قریب شامی اور بین الاقوامی ماہرین نے شرکت کی۔ اس اجتماع کا مقصد شام میں ہونے والی مادی تباہی کی مالیت کا اندازہ لگانا تھا۔ اس کانفرنس میں شریک ’ای ایس سی ڈبلیو اے‘ کے ماہرین نے بتایا کہ خانہ جنگی کی وجہ سے شام کو تین سو اٹھاسی بلین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے اور اگر اس تباہی کو روکنے کی خاطر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو مزید نقصان یقینی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس تخمینے میں ہلاکتوں اور مہاجرت کی وجہ سے ہونے والے مالی نقصان کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق شامی جنگ کی وجہ سے اب تک تقریبا ساڑھے تین لاکھ افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ شام کی نصف آبادی مہاجرت پر مجبور ہوئی ہے۔ یہ لوگ ملک میں ہی اپنے گھر بار کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں یا انہوں نے دیگر ممالک میں پناہ حاصل کرنے کی خاطر ہجرت کی ہے۔ اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ ہلاکتوں اور مہاجرت کی وجہ سے بھی شام میں اقتصادی مشکلات دوچند ہوئی ہیں۔ شام میں مالی اور اقتصادی نقصان کے بارے میں معلومات پر مشتمل اقوام متحدہ کے ادارے ’ای ایس سی ڈبلیو اے‘ کی مکمل جامع رپورٹ ستمبر میں جاری کی جائے گی۔ شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج اور ملیشیا گروپوں نے حالیہ برسوں کے دوران جہادی گروہوں کے خلاف کامیاب پیشقدمی کی ہے۔ بالخصوص سن دو ہزار پندرہ میں روسی مداخلت کی وجہ سے شامی فورسز کو کافی زیادہ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ شامی خانہ جنگی میں روس کو شامی حکومت کا ایک اہم اتحادی قرار دیا جاتا ہے۔