آگرہ میں سفید رنگ کی مشہور عمارت جسے سنگ مرمر سے بنا یا گیا، تاج محل کہلاتی ہے۔ اسے شاہ جہاں نے تعمیر کرایا جو پانچواں مغل شہنشاہ تھا۔ وہ 1628 سے 1658 تک برصغیر پاک و ہند کا حاکم رہا۔ اس نے اپنی پسندیدہ ترین بیوی ممتاز محل کی یاد میں اسے تعمیر کیا۔ یہ 42 ایکٹر پر مشتمل ہے۔ اس میں ایک مسجد اور ایک مہمان خانہ بھی ہے۔ اس کی تعمیر 1643 میں مکمل ہوئی تاہم آئندہ 10 برسوں تک اس پر اضافہ کام ہوتا رہا۔ اس وقت اس پر تین کروڑ بیس لاکھ خرچ ہوئے جو آج کے حساب سے 50 ارب روپے سے زائد بنتے ہیں۔ اس پر 20 ہزار سے زائد ہنرمندوں نے کام کیا۔ ان کی رہنمائی استاد احمد لاہوری نے کی۔ 1983 میں یونیسکو نے اسے عالمی ورثہ قرار دیا۔
ممتار شہنشاہ کی پسندیدہ ملکہ تھی۔ اپنے دور حیات کے دوران اس نے کئی سفروں کے دوران شہنشاہ کی رفاقت سرانجام دی تھی۔ اس کے علاوہ اس کی ذمہ داریوں کی سرانجام دہی میں اس کی معاونت سرانجام دی تھی۔ وہ رحم دلی اور پارسائی کے لیے مشہور تھی۔ 1629 میں جب ممتاز وفات پا گئی تو شاہجہاں نے اس کے مقبرے کو ایک شاہکار بنانے کی ٹھانی۔ تاج محل میں باغات ہیں جن میں نہریں بہتی ہیں۔ پتھروں سے بنائی گئی دیواریں ہیں۔ مینار ہیں اور ایک بڑا دروازہ ہے۔ اس کی اونچائی تقریباً سو فٹ ہے۔
یہ مقبرہ تقریباً ایک مربع شکل کا حامل ہے جو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہے۔ جب تاج محل کی تعمیر اپنے اختتام کو پہنچی تب شاہجہان کا یہ ارادہ تھا کہ دریا کے مخالف کنارے پر اپنے لیے بھی سنگ مرمر کا ایک مقبرہ تعمیر کروائے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اس کے بیٹے اورنگ زیب نے اس کے خلاف بغاوت کی اور اسے آگرہ میں نظر بند کر دیا۔ 1666 میں شاہجہان کی وفات پا گیا اور تاج محل میں اپنی بیوی کے قدموں میں دفن ہوا۔