Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

تھائی لینڈ کی سیر

$
0
0

تھائی لینڈ کا علاقہ اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں کے لوگوں نے پہلی دفعہ کانسی کے اوزار و ہتھیار استعمال کیے۔ اس سے پہلے انسانوں کے ہاں پتھرکے ہتھیار استعمال ہوتے تھے، پتھر سے کانسی اور پھر کانسی کے بعد ہتھیاروں نے لوہے کا لبادہ اوڑھا۔ تھائی لینڈ کی تہذیب میں بہت پہلے سے پالتو جانوروں کا رواج رہا ہے، یہاں کے لوگوں نے قبل از تاریخ مچھلیاں پکڑنے اور درختوں کی چھال اور ریشہ دار درختوں سے کپڑا بننے اور چاول کی فصل اگانے کا انتظام کیا۔ تھائی لینڈ کے ابتدائی باسیوں نے یہاں ابتدائی طرز کی ریاستیں بھی بنائیں اور دور دور کے فاصلے پر انسانی نفوس کی بستیاں آباد کیں، خاص طور پر چھٹی سے نویں صدی عیسوی کے دوران یہاں کے تہذیب و تمدن نے بہت ترقی کی۔

تھائی لینڈ ایشیاء کا واحد ملک ہے جس نے غیرملکی غلامی کبھی قبول نہیں کی اور یہاں پر فاتحین تو داخل ہوئے لیکن ’’آقا‘‘ کبھی داخل نہ ہو سکے۔ 1782 سے 1932 تک یہاں طویل ترین بادشاہت کا دور رہا، تب کے بعد سے سول و فوجی حکمران یہاں کی کرسی اقتدار پر براجمان رہے۔ اس دوران ایک مختصر وقت تک اس ملک کا نام ’’سیام‘‘بھی رہا لیکن اسے قبول عام نہ ہونے باعث پھر سے تھائی لینڈ ہی کہا جانے لگا۔ تھائی لینڈ میں 32 فیصد آبادی شہروں میں مقیم ہے اور ان میں سے بھی دس فیصد صرف بنکاک شہر کی رونق ہے جس کے باعث یہ ملک کا سب سے بڑا شہر گوناں گوں مسائل میں گھرا ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد سے بہتر معاشی مواقع کا حصول دیہاتی آبادی کے بہت بڑے حصے کو شہروں کی طرف کھینچ لایا تھا اور بہت سے لوگ تو مستقل طور پر یاعارضی طور ملک چھوڑ کر سمندر پار کی دوسری دنیاؤں میں آباد ہو گئے تھے۔ تھائی لینڈ کی چالیس فیصد آبادی ’’تھائی‘‘زبان بولتی ہے اور یہی یہاں کی سرکاری زبان بھی ہے۔ یہ زبان تھائی حروف ابجد میں لکھی جاتی ہے اور اس زبان کے ادب کا معلوم تاریخ میں تیرہویں صدی مسیحی سے باقائدہ آغاز ہوتا ہے لیکن اس کے ڈانڈے اس سے قدیم تر ہیں۔ تھائی لینڈ میں پڑھے لکھے لوگوں میں انگریزی کا رواج بھی ہے لیکن بہت کم، انگریزی سے زیادہ چینی زبان یہاں پر مروج ہے جبکہ چینی، انگریزی اور جاپانی زبانیں عام طور پر کاروباری طبقوں میں خط و کتابت کے ذریعے کے طور پر بکثرت استعمال کی جاتی ہیں۔

لوگوں کی اکثریت بدھ مذہب کی پیروکارہے ۔ تھائی لینڈ میں زراعت کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے۔ 1980 کے بعد سے صنعتی ترقی نے زراعت کی مدد سے ملکی پیداوار کو چار چاند لگا دیے۔ تاہم زرعی ترقی کی نسبت صنعتی ترقی نے قومی پیداوار کے اضافے میں برتر کردار ادا کیا ہے۔ سب سے اہم اور نقد آور فصل تو چاول ہی ہے لیکن اس کے علاوہ گنا، مکئی، ربر، سویابین، کھوپرا اور دیگر مختلف انواع کے پھل بھی یہاں کی پیداواری فصلیں ہیں۔ صنعتی ترقی سے پہلے چاول کی فصل یہاں سے دوسرے ملکوں کو فروخت کی جاتی تھی اور یہ ملکی زرمبادلہ کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ اب بھی اگرچہ چاول بہت بڑی مقدار میں برآمد کیا جاتا ہے لیکن بہت سی دیگر زرعی مصنوعات بھی بیرونی آمدنی کا ذریعہ بن چکی ہیں۔

تھائی لینڈ کا بادشاہ یہاں کا آئینی حکمران ہے اور افواج کا نگران اعلیٰ بھی۔ اس کے باوجود بادشاہ اپنے اختیارار کم ہی استعمال کرتا ہے اوراسکی حیثیت مشاورتی یا اخلاقی دباؤکی سی ہوتی ہے۔ وزیراعظم یہاں کا جمہوری حکمران ہے، انتخابات جیتنے والی سیاسی جماعت ایوان نمائندگان میں سے اپنے کسی رکن کو اس منصب کے لیے نامزد کرتی ہے اور بادشاہ اس کی تقرری کی دستاویزجاری کر کے اس جمہوری فیصلے کی گویا توثیق کر دیتا ہے۔ وزیراعظم کے اختیارات میں وزراکی کابینہ کی صدارت کرنا شامل ہے جس کی تعداد پینتیس سے زائد نہیں ہوتی۔2007ء کے دستور کے مطابق وزیراعظم چار چار سالوں کی زیادہ سے زیادہ دو مدتوں تک ہی منتخب ہو سکتا ہے۔

قانون سازی کے لیے جمہوری پارلیمانی ملکوں کی طرح دو ایوان ہیں، ایوان نمائندگان اور ایوان بالا۔ ایوان بالا کے منتخب ارکان چھ سال کی مدت پوری کرتے ہیں جبکہ نامزد ارکان صرف تین سالوں کے لیے ہی اپنے فرائض سرانجام دے پاتے ہیں۔ ملک کے سب صوبوں کا ایک ایک نمائندہ بھی سینٹ میں بیٹھتا ہے جبکہ کچھ بڑے صوبوں کے دو دو نمائندے بھی سینٹ میں نشست حاصل کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تھائی لینڈ میں آبادی کا کم و بیش 8% حصہ مسلمان ہے اور دن بدن اس میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، مسلمانوں کی زیادہ اکثریت جنوبی تین صوبوں میں پائی جاتی ہے۔ یہاں کے مسلمانوں کی اکثریت ’’ملائی ‘‘ نسل سے تعلق رکھتی ہے اور یہی زبان بولتی ہے۔ اس کی وجہ ملائشیا کا پڑوس ہونے کے ساتھ ساتھ ملائیشیا کے حکمران خاندانوں کا اس علاقے پر اقتداربھی ہے۔

تھائی لینڈ میں مسلمانوں کی ایک مخصوص تعداد چینی مسلمانوں کی بھی اضافت ہے خاص طور پر جو علاقے چین سے قریب ہیں وہاں یہ اثرات بہت زیادہ ہیں۔ تھائی لینڈ میں اس وقت تقریباً ساڑھے تین ہزار مساجد ہیں۔ ’’نیشنل کونسل فار مسلمز‘‘ کے پانچ نامزد ارکان حکومت کی وزارت تعلیم اور وزارت داخلہ کو مسلمانوں کے جملہ معاملات سے آگاہ رکھتے ہیں۔ بادشاہ وقت اس کونسل کے سربراہ کا بذات خود تقرر کرتا ہے۔ اسی طرح اس کونسل کی صوبائی شاخیں صوبائی حکومتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کرتی ہیں، حکومت وقت مسلمانوں کے تعلیمی اداروں، بڑی مساجد کی تعمیراور حج پرجانے والوں کے اخراجات میں بھی تعاون کرتی ہے۔ وہاں کی حکومت نے مسلمان بچوں کے لیے سینکڑوں تعلیمی ادارے، دکانیں اورایک بینک بھی بنا رکھا ہے۔

تھائی لینڈ کے مسلمانوں کو اپنی حکومت سے کچھ شکایات بھی رہتی ہیں، مذکورہ تینوں صوبوں کے مسلمانوں میں ایک عرصے سے احساس محرومی پنپ رہا ہے جو اب کسی حد تک علیحدگی پسندی کی صورت میں ایک تحریک کی شکل میں بھی ابھر رہا ہے۔ سرکاری فوج نے کچھ عرصہ پہلے کچھ مسلمانوں کا قتل عام بھی کیا تھا جس کے نتیجے میں عالمی سامراج اب اس کوشش میں ہے کہ یہاں بھی ابھرنے والی اسلامی بیداری کی تحریک کو نام نہاد ’’دہشت گردی‘‘ قرار دیا جائے۔ ’’جماع آلالامیہ‘‘ یہاں کے مسلمانوں کا ایک مشترکہ اور اتفاقی پلیٹ فارم ہے جو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتا ہے۔

ڈاکٹر ساجد


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>