امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں جس نوعیت کے اشتعال انگیز بیانات دے رہے تھے بعض مبصرین کا خیال تھا کہ صدر بننے کے بعد زمینی حقیقتوں کا ادراک کرتے ہوئے وہ اپنے فیصلوں میں لچک پیدا کریں گے لیکن یہ گمان عملی صورت اختیا ر نہ کر سکا۔ برسر اقتدار آنے کے بعد ٹرمپ عالمی و علاقائی سطح پر مسلسل غیر ذمہ دارانہ طرز عمل اپنا کر امریکہ جیسی سپر طاقت کیلئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ اور اب حالیہ دنوں صدر ٹرمپ کا جی سیون اعلامیے پر دستخط سے انکار اور کینیڈین وزیراعظم کیلئے غیر سفارتی اور سخت الفاظ کا چنائو ان کے تسلسل سے اپنائے گئے غیر دانشمندانہ رویے کی ہی ایک کڑی ہے جس سے یقیناً امریکی مفادات بھی متاثر ہوں گے۔
تفصیلات کے مطابق کینیڈا میں ہونے والے سات ترقی یافتہ ممالک گروپ کے 44 ویں اجلاس میں تجارتی معاملات کے علاوہ روس اور ایران کے معاملات زیر غور آئے۔ امریکی صدر کانفرنس کے اختتام سے قبل ہی سنگا پور روانہ ہو گئے جہاں سے انہوں نے ٹوئٹر کے ذریعے مشترکہ اعلامیے پر دستخط سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ہم دیگر ممالک کو امریکی کمپنیوں اور کسانوں پر بے جا ٹیکس نہیں لگانے دیں گے۔ امریکی صدر نے مطالبہ کیا کہ تمام تجارتی پابندیاں، ٹیکس ، سبسڈیز ختم ہونی چاہئیں، جو ممالک امریکی تجارتی پالیسی کی مخالفت کر رہے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔
اس کے ساتھ ہی ٹرمپ نے کینیڈین وزیراعظم کے بارے میں بھی سخت زبان استعمال کی جس پر وزیراعظم ٹروڈو نے کہا کہ امریکی ٹیرف کے ردعمل میں کینیڈا بھی جولائی سے امریکی مصنوعات پر محصولات عائد کرے گا۔ امریکی صدر کے اس غیر متوازن اور غیر یقینی طرزعمل کی تمام یورپی ممالک نے مذمت کی ہے اورکئی اخبارات میں ٹرمپ کو ضدی بچے سے تعبیر کرتے ہوئے کارٹون بھی شائع ہوئے ہیں۔ دیکھا جائے تو صدر ٹرمپ کے یہ اقدامات عالمی سطح پر امریکہ کیلئے بھی جگ ہنسائی کا سبب بن رہے ہیں اس پہلو پر امریکی اداروں اور عوام کوبھی توجہ دینا ہو گی ۔