Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

ایران کا جوہری معاہدہ : صدر ٹرمپ کے فیصلے کے بعد کیا ہو گا ؟

$
0
0

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے قلم کی ایک ہی جنبش سے اس معاہدے کو خطرے میں ڈال دیا ہے جو چاہے اچھا تھا یا برا لیکن ایران کو اس کے جوہری عزائم سے باز رکھے ہوئے تھا۔ انھوں نے اس معاہدے کی حامیوں کو نشانہ بنایا۔
تاہم انھوں نے اس کی جگہ کوئی دوسری پالیسی پیش نہیں کی۔ انھوں نے امریکہ کی سفارت کاری کو اس کے بعض قریبی اتحادیوں سے تصادم کے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں ایک تباہ کن علاقائی جنگ کو مزید قریب لے آئے ہیں۔ 2015 میں طے پانے والا ایران کا جوہری معاہدہ ابھی مرا نہیں تاہم یہ آخری دموں پر ہے اب سب کچھ ایران کے ردِعمل پر منحصر ہے۔

ایران صدر حسن روحانی اس معاہدے کے بڑے حامی تھے۔ وہ یورپی ممالک کے ساتھ بات کر کے اسے باقی رکھنے کے راستے تلاش کرنے کے حامی دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن انھیں ملک کے اندر سخت گیروں کی سخت مخالفت کا سامنا ہے جو نہ صرف اس جوہری معاہدے کا خاتمہ چاہتے ہیں بلکہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے بھی دستبرداری کے خواہشمند ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بظاہر اپنے ایرانی ہم منصب کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی ہے۔

ایک نامکمل معاہدہ جو کام کر رہا تھا
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہم کس بارے میں بات کر رہے ہیں۔ ایران کا جوہری معاہدہ بے شک متنازع تھا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسلسل اس کی مخالفت کرتے رہے جس کی بظاہر اس کے علاوہ کوئی اور منطق نہیں تھی کہ یہ سابق صدر نے طے کیا تھا۔ یہ معاہدہ بہترین نہیں تھا۔ یہ ایران کی تمام تر پریشان کن سرگرمیوں کا احاطہ نہیں کرتا تھا جس میں اس کا میزائل پروگرام اور علاقائی رویّہ شامل تھا۔
اس نے اس چیز کا احاطہ کیا جس کی اس میں بات ہوئی یعنی ایران کا نفیس اور متاثر کن جوہری پروگرام۔ اس میں ایران کے جوہری پروگرام پر تمام طرح کی پابندیاں عائد کیں اور تصدیق کا نظام وضح کیا تاکہ یہ یقینی بنایا جائے کہ ایران اپنے وعدہ پر عمل پیرا ہے یا نہیں۔

ان میں سے کچھ پابندیاں وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو جائیں گے۔ یعنی اچھی بات کو آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ معاہدہ ایران کو اس مقام تک پہچنے سے روکتا ہے جہاں سے آگے وہ جب چاہے جوہری بم بنا سکے۔ اور بری بات یہ کہ ممکنہ بحران میں محض تاخیر کر رہا ہے۔ یعنی یہ معاہدہ نہ ہوتا تو ایران اور اسرائیل میں جنگ کا خطرہ تھا اس لیے یہ اتنا برا نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے تکلیف دہ سچ تو یہ ہے کہ جب تک یہ تھا تو جوہری معاہدہ کام تو کر رہا تھا۔ معاہدے میں شامل دیگر ممالک کا خیال ہے کہ ایران معاہدے کی شرائط پر پورا اتر رہا ہے۔ اور عالمی جوہری ادارہ آئی اے ای اے بھی ایسا ہی سمجھتا ہے۔ حتٰی کہ ٹرمپ انتظامیہ کے اہم ارکان بھی خاص طور پر نئے وزیر خارجہ مائیک پوم پےاو اور نیشنل انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر ڈین کوٹس۔ اس کے باجود ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے جوہری معاہدے کی مذمت کی کیونکہ ان کے بقول اس میں بہت سی چیزیں موجود نہیں تھیں جنھیں پہلے ہی دیکھا جانا چاہیے تھا۔

تو اب ہم یہاں سے کہاں جائیں گے؟
آگے خطرناک راستہ
اب تہران میں ایک لڑائی جاری ہے جس میں جیتنے والا یہ فیصلہ کرے گا کہ یہ معاہدہ بچے گا یا نہیں۔ اگر اعتدال پسند حاوی ہوتے ہیں تو یورپی ممالک اس میں اہم کردار ادا کریں گے۔ اس میں جو چیز داؤ پر ہے وہ ایران کے خلاف امریکی پابندیاں نہیں بلکہ اضافی پابندیاں ہیں جو غیر امریکی عالمی کمپنیوں کو تہران کے ساتھ کام کرنے سے روکتی ہیں۔ صدر ٹرمپ کے اس فیصلے سے یورپی واضح طور پر خوفزدہ ہیں۔ وہ بظاہر اس معاہدے سے منسلک رہنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہم ایک بے مثال صورتحال سے دوچار ہیں جس کے خطرناک نتائج بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر ایران کا جوہری معاہدہ ٹوٹ جاتا ہے تو ایران پھر سے جوہری سرگرمیاں شروع کر دے گا.

پھر کیا ہو گا ؟
امریکہ، یورپ اور نیٹو جہاں پہلے ہی روس کے جارحانہ موقف کی وجہ سے پریشان ہیں اس کی وجہ سے مزید کشیدگی بڑھے گی اور خود مشرق وسطیٰ میں جنگ کا خطرہ ہے۔ ایران اور اسرائیل پہلے ہی شام میں چھوٹی موٹی جھڑپوں میں ملوث ہیں اور براہ راست لڑائی کا خطرہ ہے۔ ایران پہلے ہی اپنے اتحادی اور تنصیبات پر فضائی حملوں کی وجہ سے تکلیف میں ہے اور بدلے کے لیے بے تاب ہے۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو امریکی صدر کو یہ جوہری معاہد ختم کروانے کے لیے اکسانے والوں میں سرِ فہرست تھے۔

پلان بی کیا ہے؟
جوہری معاہدے کا لازمی جز ایران کو جوہری بم بنانے سے دور رکھنا تھا۔ اس سے یہ ہوتا کہ ایران کی جانب سے اس پابندی کو توڑے جانے کی صورت میں عالمی دباؤ بڑھانے کا وقت مل جاتا۔ لیکن اگر جوہرے معاہدہ ٹوٹ جاتا ہے اور ایران اپنا جوہری پروگران دوبارہ شروع کر دیتا ہے تو؟ ایران کا جوہری بم بنا لینا سعودی عرب سمیت دوسرے ممالک کی بھی حوصلہ افزائی کرے گا کہ وہ بھی جوہری طاقتیں بنیں۔ ہم اس وقت غیر معمولی دور میں ہیں اور یہ فیصلہ 18 ماہ سے عہدے پر فائز ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کا حقیقی آغاز ہے اور ناقدین کے بقول یہ فیصلہ ان کے جذبات اور چھٹی حس پر مبنی ہے ناکہ عملی حقائق کے تحت۔ حتیٰ کہ ڈونلڈ ٹرمپ سے اتفاق کرنے والے بھی کئی بنیادی سوالات کے جواب کے منتظر ہیں۔ اب دوسرا راستہ یا پلان بی کیا ہے؟ اب ایران کو کیسے پابند کیا جائے گا ؟ اور اس مقصد کے لیے بین الاقوامی اتفاقِ رائے کیسے حاصل کیا جائے گا ؟

جوناتھن مارکس
تـجزیہ نگار، دفاعی و سفارتی امور

بشکریہ بی بی سی اردو
 


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>