نسل پرستی، ایک نظریہ ہے جس میں سمجھا جاتا ہے کہ کوئی انسانی نسل جینیاتی یا موروثی طور پر ممتاز یا کمتر ہے۔ نسل پرستی کسی ایک انسانی نسل کی کسی دوسری نسل یا انسانی گروہ پر فوقیت یا احساس برتری کو کہا جاتا ہے۔ نسل پرستی نسلی امتیار کو پیدا کرتی ہے۔ نسل پرستی چند افراد کا معاملہ بھی ہو سکتا ہے اور یہ بڑے پیمانے پر کسی سماج یا ملک میں بھی ہو سکتی ہے۔ بڑے پیمانے پر نسل پرستی ہو تو کسی ایک نسلی گروہ یا آبادی کا دوسری نسل انسانی کے گروہ پر نسل کی بنیاد پر سہولیات، حقوق اور سماجی فوائد تک رسائی محدود کر دی جاتی ہے۔
ماضی میں اس کی مثال امریکا اور جنوبی افریقہ ہیں۔ وہاں سیاہ فاموں کو کم تر سمجھا جاتا تھا۔ ان کے لیے علیحدہ عبادت گاہیں اور سکول وغیرہ تھے۔ امریکا میں دوران سفر اگر کوئی سفید فام بس میں سوار ہوتا تو سیاہ فام کے لیے لازم تھا کہ وہ اس کے لیے نشست خالی کرے۔ نسلی امتیاز کی وجہ سے جنوبی افریقہ اور امریکا میں سیاہ فام آبادی سے غیر انسانی سلوک کیا گیا۔ نسل پرستی کی بنیاد پر ہونے والا امتیاز انسانی حقوق کی نفی ہے۔ نسل پرستی اور گروہی امتیاز دونوں مجموعی طور پر معاشرتی مسائل ہیں اور ان کی نوعیت ایک جیسی ہے۔ انسان جینیاتی لحاظ سے مختلف نسلوں میں بٹے ہوئے ہیں۔
مثلاً سیاہ فام اور منگول نسل۔ ان کی ظاہری شکل و صورت اور جسمانی ساخت میں فرق ہے۔ مثال کے طور پر سیاہ فاموں کے بال گھنگریالے جبکہ منگولوں کے سیدھے ہوتے ہیں۔ ابتدا میں اسی ظاہری فرق کو ہی امتیاز اور نفرت کی بنیاد بنا لیا جاتا تھا۔ لیکن اس امتیاز سے مفادات بھی وابستہ رہے۔ امریکا میں جب سیاہ فام غلاموں کو افریقہ سے پکڑ کر لایا جاتا تو ان سے کم و بیش جانوروں جیسا سلوک ہوتا تھا۔ کھیتوں میں ان سے بہت زیادہ کام لیا جاتا تھا۔ ایسے سلوک کے جواز کے لیے کسی ’’نظریے‘‘ کی ضرورت تھی اور یہ ’’نظریہ‘‘ نسل پرستی سے اخذ ہوتا تھا۔ سفید فام یہ سمجھتے تھے کہ وہ اعلیٰ اور افضل ہیں جبکہ سیاہ فام پوری طرح انسان نہیں اس لیے انہیں آقا بننے کا پورا حق حاصل ہے۔ بعض اوقات سائنسدان ، سماجی ماہرین اور تاریخ دانوں نے ایسے نظریات کو بڑھاوا دیا جو نسل پرستی کی تائید کرتے تھے کیونکہ ان کا تعلق غالب نسلی گروہ سے تھا۔