Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

فوجی قیادت کی نئی سوچ اور زمینی حقائق

$
0
0

خوبیاں اور خامیاں ہر انسان میں ہوتی ہیں اور پرویز مشرف بھی کچھ ذاتی خوبیوں کے حامل تھے لیکن ماضی قریب میں فوج کے امیج کو سب سے زیادہ نقصان جنرل پرویز مشرف نے پہنچایا تو اس کی بحالی میں کلیدی کردار جنرل اشفاق پرویز کیانی کا رہا ۔ فوج کے مورال کو بحال کرنے اور سول ملٹری تعلقات میں بہتری کے لئے جنرل کیانی کے کردار کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جنرل راحیل شریف ذاتی لحاظ سے بہت اچھے اور بہادر انسان تھے لیکن ان کی ذاتی خوبیوں کے باوجود ان کے دور میں سول ملٹری تعلقات بھی غیرمعمولی حد تک خراب ہوئے۔ ان کے دور میں فوج نے قربانی اور بہادری کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی لیکن دھرنوں ، لاک ڈائون اور ذاتی تشہیر پر حد سے زیادہ توجہ نے سول ملٹری تنائو کو کم کرنے کی بجائے بڑھا دیا۔ 

ان کے دور میں میڈیا کو بھی بری طرح غلام بنانے کی کوشش ہوئی اور اسے تقسیم کے گندے عمل سے گزارا گیا جس کا نقصان آج میڈیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی پہنچ رہا ہے ۔ چنانچہ جب جنرل قمر جاوید باجوہ نے بحیثیت آرمی چیف کمانڈ سنبھالا تو انہیں دہشت گردی اور ناکام خارجہ پالیسی جیسے دیرینہ مسائل کے ساتھ ساتھ ، انتہائی خراب سول ملٹری تعلقات اور تقسیم میڈیا کے مسائل ورثے میں ملے۔ فہم و فراست، بردباری اور تدبر جنرل اشفاق پرویز کیانی کے اپنی مثال آپ تھے لیکن جنرل قمرجاوید باجوہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے بعض غیر معمولی خوبیوں سے نوازا ہے ۔ فوجی تو کیا کسی سویلین کو بھی ان کی طرح کھلے ڈھلے انداز میں کھری گفتگو کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ 

گزشتہ سوا سال کے دوران پانچ چھ مرتبہ ان سے تبادلہ خیالات کا موقع ملا اور ہر موقع پر ایسا گمان ہوتا ہے کہ ان کی زبان دل کی رفیق ہے۔ پاکستان میں آئین کی بالادستی اور جمہوریت کے حوالے سے ان کی سوچ بہت راسخ نظر آتی ہے ۔ وہ نجی اور آف دی ریکارڈ محفلوں میں بھی حلفاً قسماً کہتے رہتے ہیں کہ جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے بھی ان کا ذہن یکسو اور سوچ مثبت ہے۔ مثلاً وہ ہر طرح کی عسکری تنظیموں سے پاکستان کو پاک کرنا چاہتے ہیں ۔ تکرار کے ساتھ اس فقرے کو بار بار دہراتے اور اپنے ماتحتوں کے ذہنوں میں راسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وائلنس (Violence) پر اجارہ داری صرف ریاست کی ہونی چاہئے۔ وہ افغانستان میں قیام امن کے اس قدر دلی خواہش مند نظر آتے ہیں کہ افغان سفیر ڈاکٹر عمر زاخیلوال بھی ان کے مداح بن گئے ہیں ۔ 

آزادی اظہار کے وہ اس قدر قائل نظر آتے ہیں کہ ہمارے ہاں غدار مشہور کئے جانے والے دانشوروں اور صحافیوں کا نام سب سے زیادہ عزت اور احترام سے لیتے ہیں۔ ان کے مشیر اُن کو بتاتے رہتے ہیں کہ وہ حکومت کی بجائے ریاست کا لفظ استعمال کیا کریں لیکن وہ بار بار محفلوں میں کہتے رہتے ہیں کہ وہ حکومت کے ملازم ہیں اور یہ کہ وزیراعظم ان کے باس ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کے لئے آصف علی زرداری ، رضاربانی اور فرحت اللہ بابر جیسے لوگوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں لیکن جنرل قمر باجوہ کے ذاتی سوچ کے مثبت ہونے کا یہ عالم ہے کہ وہ رضا ربانی کی ایک فون کال پر سینیٹ کو بریفنگ دینے آ گئے۔

سب سے بڑی خوبی اللہ نے ان کو یہ ودیعت کی ہے کہ تکبر ان کے قریب سے نہیں گزرا اور ملنے والے کو اتنی عزت دیتے ہیں کہ بعض اوقات ڈر لگ جاتا ہے کہ خدانخواستہ کہیں جنرل ضیاء الحق کشادہ سینے اور دراز قد کے ساتھ دوبارہ تو زندہ نہیں ہوئے ۔ جنرل قمر جاوید باجوہ جلوتوں میں نہیں بلکہ خلوتوں میں بھی اداروں کے احترام پر زور دیتے ہیں اور عدلیہ کے امیج اور وقار کے بارے میں بہت فکرمند بھی نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح وہ واحد آرمی چیف ہیں جو کھل کر قومی معاملات کے حوالے سے اپنے ادارے کی ماضی کی غلطیوں یا حال کی کمزوریوں کو کھلے دل کے ساتھ تسلیم کرتے اور سب کے حوالے سے ماضی کو دفن کر کے پاکستان کی تعمیر کے لئے نئے سفر کے آغاز پر زور دیتے ہیں ۔

میل جول میں وہ جتنے سادہ اور نرم ہیں ، عمل میں وہ اتنے سخت اور بولڈ (Bold) ہیں ۔ مثلاً ماضی کے آرمی چیفس کمانڈ سنبھالنے کے بعد اپنی ٹیم لانے اور سابق چیف کی ٹیم سے جان چھڑانے میں کم از کم سال کا عرصہ لگاتے تھے لیکن انہوں نے یہ کام ایک مہینے کے اندر کر ڈالا۔ انہوں نے عسکریت پسندوں کے لئے معافی کا راستہ دینے اور جہادی تنظیموں کے مین اسٹریمنگ کا فیصلہ کیا تو اس مشکل فیصلے پر دنوں میں عمل کروا دیا۔ انہوں نے جہاد اور قتال سے متعلق مذہبی بنیادوں پر جوابی بیانیے کی ٹھان لی تو چند ماہ کے اندر اندر اپنے اداروں کے ذریعے ملک کے اٹھارہ سو علما سے وہ فتویٰ جاری کروا دیا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ انہوں نے ان مذہبی لیڈروں کے ذریعے اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کی راہ ہموار کی جنہوں نے ماضی میں جنرل ضیاء الحق اور ان کے جانشینوں کے ایما پر یہ آگ بھڑکائی تھی۔ ایک اور خوبی ان کی یہ ہے کہ آرمی چیف بن کر بھی وہ بالکل قبائلی انداز میں دوستی اور دشمنی نبھاتے ہیں۔

مذکورہ اوصاف کے تناظر میں دیکھا جائے تو جنرل قمر جاوید باجوہ سے بجا طور پر یہ امید لگائی جا سکتی ہے کہ وہ پاکستان کو دفاعی، مذہبی اور سماجی حوالوں سے اس ڈگر پر گامزن کرا دیں جس کا خواب قائد اعظم نے دیکھا تھا لیکن (اور یہ ایک بڑا لیکن ہے ) چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنی سوچ کو اپنے ماتحت اداروں تک کیسے منتقل کریں اور اسے عمل کے روپ میں کیسے ڈالیں۔ بدقسمتی سے آج بھی عملاً گراونڈ پر جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے ، وہ بسا اوقات جنرل صاحب کی مذکورہ سوچ کا عکاس نہیں ہوتا۔ مثلاً جنرل صاحب کی سوچ ہے اور جو بالکل درست سوچ ہے کہ وائلنس اور جہاد پر ریاست کی اجارہ داری ہونی چاہئے ۔ 

ان کی اس سوچ کو آج تک مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی سمیت کسی سیاسی جماعت نے چیلنج نہیں کیا لیکن صرف دو مذہبی لیڈر برملا ان کے اس بیانیے کے خلاف بول رہے ہیں اور بدقسمتی سے وہ دونوں آج بھی اداروں کے چہیتے ہیں ۔ اسی طرح جنرل صاحب عدلیہ کے احترام کے لئے فکر مند ہیں اور مسلم لیگ (ن) کی عدلیہ کے ساتھ جاری لڑائی میں ان کے ماتحت ادارے عدلیہ کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں لیکن ریاستی ادارے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو گالیاں دینے والے خادم حسین رضوی جیسے لوگوں کے منہ بند کرنے کی کوشش کرتے نظر نہیں آتے ۔ 

وہ فوج کو سیاست سے لاتعلق کرنا چاہتے ہیں لیکن تعلقات عامہ سے متعلق ایک اہم محکمے میں بیٹھے بعض لوگ روزانہ اسکول کے مانیٹر کی طرح میڈیا کو ہدایات دیتے رہتے ہیں۔ انہیں ہندوستان کے پاکستان کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے کی کم لیکن پرویز رشید کے انٹرویو جیسے داخلی سیاسی معاملات کی زیادہ فکر لاحق ہوتی ہے ۔ ماتحت اداروں کے بعض لوگ آج بھی اس مشن میں لگے ہیں کہ کس طرح میڈیا کو تقسیم کریں اور کس طرح میڈیا کے اندر بے وقار اور جھوٹے لوگوں کو محترم و مکرم ثابت کر دیں ۔ جنرل صاحب میڈیا سے متعلق بجا شکایت کرتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا ایشوز کی بجائے شخصیات کو ڈسکس کرتا رہتا ہے ۔

ان کی یہ تشویش بھی بالکل بجا ہے کہ بسا اوقات میڈیا پاکستانی اداروں اور معاشرے کے اندر سبورژن (Subversion) پھیلانے کا موجب بن رہا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ کام کرنے والے افراد اور میڈیا ادارے ہی عموماً ماتحت اداروں کے منظور نظر رہتے ہیں ۔ جنرل صاحب سیاست کو گند سے صاف کرنے کے متمنی ہیں لیکن سینیٹ انتخابات کے دوران آصف علی زرداری صاحب بلوچستان سے کراچی اور اسلام آباد سے پشاورتک جو گند کر رہے تھے، انہیں اس عمل میں بعض اداروں کی سرپرستی بھی حاصل رہی ۔ جنرل صاحب عدلیہ کو متحرک دیکھنا چاہتے ہیں اور عزم ظاہر کر رہے ہیں کہ عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے. لیکن دوسری طرف عزیر بلوچ کسی عدالت میں پیش ہونے کی بجائے پراسرار طور پر غائب ہے جبکہ سپریم کورٹ کے بار بار نوٹسز کے باوجود رائو انوار کو گرفتار کر کے پیش نہیں کیا جا رہا ۔ ہماری دعا ہے کہ جنرل صاحب اپنی مذکورہ سوچ کو عملی شکل دینے میں کامیاب ہو جائیں اور اپنے ماتحت اداروں میں ان لوگوں کی خبر لے سکیں جو ان کی سوچ اور خیالات کے برعکس سیاست ، صحافت اور عدالت کو الٹ سمت میں لے جانا چاہتے ہیں۔

سلیم صافی

 


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>