امریکا میں اسٹاک مارکیٹس کو شدید بحران کا سامنا ہے اور صرف اپریل میں انڈیکس میں 2.2؍ فیصد دیکھنے کو ملی۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے ساتھ اقتصادی جنگ کی وجہ سے ملک کو دوسری مرتبہ ’’عظیم کساد‘‘ جیسے خطرات کا سامنا ہے، 500؍ انڈیکس میں رواں ہفتے کے دوران 2.2؍ فیصد کمی دیکھنے کو ملی، ڈالر شدید دبائو کا شکار رہا۔ رپورٹ کے مطابق، چین کی جانب سے اپنی درآمدی اشیاء پر بھاری ڈیوٹیاں عائد کیے جانے کے بعد سے امریکا کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری سہ ماہی کے دوران، ایس اینڈ پی انڈیکس کی کارکردگی پہلے تجارتی سیشن کے دوران مایوس کن رہی۔ ایسی صورتحال 89؍ سال قبل بھی پیش آئی تھی جب یہ انڈیکس 2.5؍ فیصد تک گر گیا تھا۔ اس وقت اثاثوں کی فروخت (سیل آف) کی وجہ سے یہ بحران آیا تھا اور اسے امریکی تاریخ کا بدترین بحران قرار دیا گیا تھا۔
ڈائو جونز انڈسٹریل ایوریج 1.9؍ فیصد زوال کا شکار نظر آیا جبکہ ٹیکنالوجی سے لیس نسدق کمپوزٹ انڈیکس 2.74؍ فیصد تک گر گیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حملوں کی وجہ سے نسدق کی لسٹ پر موجود سب سے بڑی کمپنی، امیزون، کے نقصانات میں اضافہ دیکھنے کو ملا اور اس کے شیئرز کی قیمت میں 5؍ فیصد کمی ہوئی۔ یاد رہے کہ دوسری جنگ عظیم سے قبل عظیم کساد (انگریزی میں دی گریٹ ڈپریشن) ایک عالمی اقتصادی بحران تھا، مختلف ملکوں کو مختلف برسوں کے دوران اس بحران کا سامنا کرنا پڑا لیکن زیادہ تر ملکوں میں یہ بحران 1929ء سے لے کر 1940ء کی دہائی کے اوائل تک رہا۔ گریٹ ڈپریشن کو 20ویں صدی کا بدترین بحران قرار دیا جاتا ہے، اس بحران کا آغاز امریکا میں 29؍ اکتوبر 1929ء کو اسٹاک مارکیٹ کریش ہونے سے ہوا تھا، اس دن کو امریکی تاریخ میں بلیک ٹیوزڈے (سیاہ منگل) کہا جاتا ہے۔
اس واقعے کے بعد بحران پوری دنیا میں پھیل گیا تھا۔ شکاگو میں پرفارمنس ٹرسٹ کیپیٹل پارٹنرز نامی کمپنی کے ڈائریکٹر ٹریڈنگ برائن بیٹل کا کہنا تھا کہ صورتحال بہت پیچیدہ ہے کیونکہ معاملہ ٹیکنالوجی کمپنیوں کے اثاثوں کی فروخت کا نہیں رہا، صورتحال ایسی بنتی جا رہی ہے کہ فروخت کرنے والے اثاثے بیچنے میں دلچسپی لے رہے ہیں اور انہیں بنیادی اصولوں کا علم ہی نہیں۔ جنوری میں ایس اینڈ پی 500؍ انڈیکس 10؍ فیصد پر ٹریڈ کر رہا تھا اور اس کے بعد سے صورتحال کو درست کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ چین نے امریکا کی 128؍ مصنوعات پر اضافی 25؍ فیصد ڈیوٹی عائد کر دی تھی جن میں گوشت، شراب، پھل اور خشک میوہ جات شامل ہیں۔ یہ اقدامات امریکا کی جانب سے چین کی ایلومینم اور دیگر اشیا پر درآمدی ڈیوٹی عائد کیے جانے کے بعد کیے گئے تھے۔
امریکا کی جانب سے مزید ڈیوٹی عائد کیے جانے کی صورت میں چین نے بھی ’’متوازن‘‘ رد عمل دینے کا اعلان کر رکھا ہے۔ دوسری جانب امریکا میں معاشی سیکورٹی کے متعلق مشورے دینے والی کمپنی اسپراٹ ہولڈنگز رک رول کا کہنا ہے کہ اگر معاشی کشیدگی کا سلسلہ جاری رہا تو ایک دہائی بعد سونے کی قیمتوں میں اعلیٰ ترین سطح تک اضافہ ہو سکتا ہے اور قیمتیں 1400؍ ڈالر فی اونس (28.34؍ گرام) تک جا سکتی ہیں۔ چین اور امریکا کی معاشی جنگ کی وجہ سے سرمایہ کار پریشانی کا شکار ہیں۔ رواں ہفتے امریکی حکومت کی جانب سے چین کیخلاف مزید اقدامات کیے جانے کا امکان ہے۔ تنازع بڑھنے کی صورت میں توقع کی جا رہی ہے کہ امریکی اشیا کی طلب کم ہو سکتی ہے اور اس سے نہ صرف بجٹ خسارہ بڑھے گا بلکہ ڈالر کی قیمتوں کو بھی دھچکا لگ سکتا ہے۔