اسرائیلی فوج نے جمعہ کو غزہ کی پٹی میں پُرامن احتجاج کرنے والے ہزاروں نہتے فلسطینیوں پر براہ راست فائرنگ کی، ربر کی گولیاں چلائیں اور انھیں منتشر کرنے کے لیے اندھا دھند اشک آور گیس کے گولے پھینکے جس سے 16 فلسطینی شہید اور 1400 سے زیادہ زخمی ہوگئے۔ ان میں 760 براہ راست گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے ، وہ کم ہے۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے وقت عرب سرزمین سے جبری بے دخل کیے گئے لاکھوں فلسطینیوں کی واپسی کے حق میں مظاہرہ کر رہے تھے۔ ان ہی کی آبائی سرزمین پر مسلح یہودی گروپوں نے قبضہ کر کے اسرائیل کے نام سے اپنی ریاست قائم کر لی تھی۔
صہیونی فوج نے ان فلسطینی مظاہرین کو غزہ کی سرحد کے ساتھ لگائی گئی باڑ کے نزدیک آنے سے روکنے کے لیے پہلے ہی ایک سو سے زیادہ ماہر نشانہ باز تعینات کر دیے تھے اور انھیں گڑ بڑ کی صورت میں کسی بھی فلسطینی کو گولی مارنے کا حکم دیا تھا۔ سو انھوں نے اس پر عمل درآمد کیا۔ واضح رہے کہ فلسطینیوں کے مظاہروں کے دوران میں کسی گڑ بڑ کا تعیّن صہیونی فوج خود ہی کرتی ہے۔ جمہوریت ، جمہوری حقوق اور شہری آزادیوں کے لیے ہمہ وقت غلطاں وپیچاں رہنے والے مغربی لیڈروں ، اظہار رائے کی آزادی کے پرچار کرنے والے مغربی میڈیا اور ان کے بے دام غلام مشرقی آلہ کاروں کی جانب سے دم تحریر ایسا کوئی بیان نظر سے نہیں گزرا جس میں انھوں نے ریاستی دہشت گردی کے اس واقعے کی اس کی سنگینی کے عین مطابق مذمت کی ہو یا کم سے کم اس طرح کا ردعمل ظاہر کیا ہو ، جس طرح انھوں نے برطانیہ میں روس کے ایک ڈبل ایجنٹ کو زہر دینے کے واقعے کی مذمت کی تھی۔ وا ری! منافقت تیرا آسرا۔
مسلم دنیا سے ہمیشہ کی طرح صرف ترک صدر رجب طیب ایردوآن بولے ہیں اور انھوں نے نہتے فلسطینیوں کے خلاف طاقت کے اس وحشیانہ اور غیر انسانی استعمال کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ باقی سب پر فلاکت وادبار مسلط ہے۔ خون مسلم کی اگر ہر کہیں ارزانی ہے تو ہوتی رہے، ان کی بلا سے۔ انھیں اپنے کام سے غرض ہے اور بس۔ اپنے یہاں کے دانش افرنگ کے مبلغوں کو ملالہ یوسفزئی کی مدح سرائی اور اس کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملانے سے فرصت ہو تو کچھ ارشاد کریں ۔ تہذیب مغرب کے آگے ڈھیر ہو جانے والوں میں اگر کوئی بولا یا کسی نے کچھ لکھا تو اس کا وہی بیانیہ ہو گا جو یہود کے ملکیتی میڈیا اداروں یا خبررساں ایجنسیوں نے سالہا سال سے وضع کیا اور لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس سے بڑی ریاستی دہشت گردی اورکیا ہو سکتی ہے کہ محض کسی شُبے اور امکان کی بنا پر ہی ہزاروں مظاہرین پر براہ راست گولیاں چلا دی جائیں اور ان کا خون بہانے میں کسی تردد کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ شاید فلسطین نام کی قوم کے کوئی حقوق نہیں یا جب اسرائیل کا ذکر آجائے تو انسانی حقوق کی تعریف بدل جاتی ہے۔ اگر مسلم دنیا میں کوئی دم خم ہوتا اور خود فلسطینیوں میں اتحاد ہوتا کہ وہ دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ان کی کوئی اجتماعی قوت نہیں تو اسرائیلی فوج کو شاید اس طرح ظلم و سفاکیت کا مظاہرہ کرنے کی جرأت بھی نہ ہوتی۔ بات وہی ہے۔