Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

کیا افغانستان میں امن و امان پاکستانی تعاون کے بغیر ممکن ہے؟

$
0
0

افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کو کابل میں سرکاری دورے کے رسمی دعوت نامے کا گزشتہ ہفتے اعلان کیا گیا تھا۔ تاہم اسلام آباد حکومت ابھی تک یہ دعوت قبول کرنے پرغور کر رہی ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے تجزیہ نگار افغان صدر اشرف غنی کے اس دعوت نامے کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔ پاکستانی دارالحکومت میں موجود سینئر صحافی حامد میر نے بھی ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر غنی کی وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کو کابل کی دعوت خوش آئند ہے کیونکہ ایک طویل عرصے سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدگی کا شکار ہیں۔

حامد میر نے بتايا کہ ان کے پاس موجود اطلاعات کے مطابق افغانستان میں امن و امان کی بحالی کی کوششوں کے تناظر میں وزیر اعظم پاکستان جلد ہی کابل کا دورہ کریں گے تاہم فی الحال حتمی طور پر اس فيصلے کا اعلان نہيں کيا گيا ہے۔ دوسری جانب کابل میں موجود افغان صحافی فہیم دشتی نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر غنی کا پاکستانی وزیراعظم کو کابل کی دعوت دینا حکومت کی نئی کی منصوبہ بندی کا ایک جز ہے۔ گزشتہ مہینے افغان حکومت کی جانب سے کابل کانفرنس میں افغان طالبان سے بات چیت کا اعلان کیا گیا تھا۔ فہیم دشتی کے خیال میں افغان حکومت کا ماننا ہے که افغانستان میں قيام امن پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

ایک سوال کے جواب میں فہیم دشتی کا کہنا تھا کہ اگر اشرف غنی بھارت اور افغانستان کے مابین بڑھتے ہوئے تعلقات پر پاکستان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرانے ميں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو شاید پاکستان طالبان پر اپنے مبينہ اثر و رسوخ کا فائده اٹهاتے ہوئے انہیں امن مذاکرات کی پیشکش قبول کرنے پر آمادہ کر سکتا ہے۔ دوسری جانب پاکستانی صحافی حامد میر کے بقول پاکستان افغان طالبان سے بات چیت کے سلسلے میں کابل حکومت کی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان طالبان اسلام آباد کے مقابلے میں تہران اور موسکو کے زيادہ اثر و رسوخ میں ہیں۔

ماضی میں افغان حکومت کی جانب سے پاکستان پر شدید تنقید کی جاتی رہی ہے کہ افغانستان میں بدامنی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی سرحد پار کی جاتی ہے۔ اس بارے میں حامد میر کا کہنا تھا کہ سابق افغان صدر حامد کرزئی کے دور حکومت میں افغانستان کے پاس ایران اور افغان طالبان کے درمیان مبينہ ’مضبوط روابط‘ کے ثبوت موجود تھے لیکن افغان حکومت کی جانب سے پاکستان کو آسان حریف سمجھ کر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ واضح رہے کہ صدر غنی کی جانب سے رسمی دعوت نامے کا اعلان پاکستان کے مشير برائے قومی سلامتی ناصر جنجوعه کے ساتھ کابل ميں گزشتہ ہفتے ايک ملاقات کے بعد کیا گیا تھا۔

 بشکریہ DW اردو


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>