آسمان سے برستے مارٹر گولوں کی دہشت، طیاروں کی گرج، میزائلوں کا شور، رائفلوں کی تڑتڑاہٹ، مکانات سے اٹھتا دھواں، روتی چلاتی عورتیں، افسردہ بوڑھے، خوفزدہ نوجوان، تڑپتے چیختے معصوم بچے، جلی کٹی لاشیں، ویران شہر، تباہ حال گاؤں اور زیر عتاب الغوطہ۔ یہ کائناتِ ارضی کے خطہ شام کی حالت زار ہے جہاں بدستور کشت و خون جاری ہے۔ کونسا ایسا ظلم ہے جو شامیوں پر روا نہ رکھا گیا ہو۔ بچوں، خواتین اور بوڑھوں کو تڑپا تڑپا کر مارا جا رہا ہے۔ مظلوم شامی ماؤں، بہنوں اور بچوں کے ویڈیو پیغامات سوشل میڈیا کے ذریعے ہم تک پہنچ رہے ہیں۔ یہ پیغامات اتنے دردناک ہیں کہ نہ پورے سنے جاتے ہیں اور نہ ہی دیکھے جا سکتے ہیں۔ زخموں سے چور ایک بچی کی ویڈیو نے تو تڑپا کر رکھ دیا جس میں وہ کہتی ہے کہ میں یہ سب الله کو جا کر بتاؤں گی۔ بچے رو رو کر مسلم امہ کو جگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا یہ درد اور یہ چیخیں مسلم امّہ کی بے حسی پر نوحہ کناں ہیں۔
ذرا سوچیے کہ آپ کا کوئی عزیز یا رشتہ دار فوت ہو جائے تو اس صدمے کو بھلانے میں آپ کو مہینے اور سال لگ جاتے ہیں لیکن جہاں دن رات بچے تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہوں اور جہاں پورے کے پورے خاندان شہید ہو رہے ہوں، ان پر کیا بیت رہی ہو گی۔ اس وقت سوشل میڈیا پر جہاں شام کی حالت زار کے تذکرے ہو رہے ہیں وہیں ایران و عرب کے حامی بھی ایک دوسرے پر لعنت ملامت کرتے نظر آرہے ہیں۔ لیکن آپ اگر اس جنگ کا پس منظر دیکھیں تو آپ کو دونوں برابر کے قصوروار نظر آئیں گے۔ اسد جیسا ڈکٹیٹر ہو یا داعش جیسی تنظیمیں، دونوں ہی ناسور ہیں۔
آپ کو اس جنگ میں کئی عالمی اور علاقائی طاقتیں دخل اندازی کرتی دکھائی دیں گی اور درجنوں مسلح گروہ بھی برسرپیکار نظر آئیں گے۔ اسدی فوج کے پیاسے درندے ہوں، روسی فوج کے سفید بھیڑیئے ہوں یا ایران و عرب کے حمایت یافتہ بیرونی حملہ آور، سب اپنے اپنے مفاد کی جنگ لڑ رہے ہیں اور امریکہ و اسرائیل اس کھیل سے خوب محظوظ ہو رہے ہیں۔ کوئی اقتدار پر قابض رہنا چاہتا ہے تو کوئی اپنے مفاد کی خاطر اس جنگ سے وابستہ ہے اور ایسی صورتحال میں ان سامراجی قوتوں کے معاہدے بھی شام کا امن بحال کرنے سے قاصر ہیں۔
اگر آپ کو شامی عوام کے ساتھ ہمدردی اور جنگ سے نفرت ہے تو آپ ایران و عرب کی بحث میں الجھے بغیر اس آگ کو بجھانے میں اپنا کردار ادا کریں گے؛ جس آگ نے شامی عوام کی نسلوں کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ آگ تب تک نہیں بجھے گی جب تک شام سے تمام بیرونی قوتوں کا عمل دخل ختم نہیں ہو جاتا۔ آپ بچوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کی ایک حالیہ رپورٹ ملاحظہ کیجیے جس کے مطابق گزشتہ چھ سال سے شامی فوج کے سفاک حملوں میں ساڑھے سات لاکھ سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں، بے شمار بچے یتیم اور بے سہارا ہو کر انتہائی ابتر حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران پانچ سو سے زائد مسلمان شہید ہو چکے ہیں جن میں دو سو کے قریب معصوم بچے ہیں۔
بچوں پر اتنا ظلم چہ معنی دارد؟ بچے تو جنت کے پھول ہوتے ہیں، بچے تو معصوم ہوتے ہیں، بچوں کو کیا معلوم کہ شیعہ کون ہوتا ہے اور سنی کسے کہتے ہیں؟ بچے تو دہشت گرد بھی نہیں ہوتے۔ تو پھر ایسے معصوم پھولوں کو مسلنے والے کون ہو سکتے ہیں؟ وہ کوئی بھی ہوں، ان کا تعلق کسی بھی فرقے سے کیوں نہ ہو، وہ ہمیشہ سفاک درندے ہی کہلائیں گے۔ کبھی تو ان درندوں کا حساب ہو گا، کبھی تو ان سے پوچھا جائے گا کہ دھول میں اٹے اور سہمے ہوئے ان بچوں کا کیا قصور تھا؟ کبھی تو ان سے سوال ہو گا کہ ایک کے بعد ایک بستی تم کیوں اجاڑتے چلے گئے؟
الله کی عدالت میں ان فرعونوں کا حساب تو ہوگا ہی لیکن ساتھ ہی ساتھ اگر ہم سے بھی پوچھ لیا گیا کہ آپ یہ سب ظلم دیکھ کر بھی خاموش تماشائی بنے رہے تو ہم کیا جواب دیں گے؟ ہم اگر اور کچھ نہیں کر سکتے تو اپنے شامی مسلمانوں کا دکھ اور درد تو محسوس کر سکتے ہیں۔ اگر ہم بے بس ہیں تو ان کے ساتھ مالی تعاون تو کر سکتے ہیں۔ پاکستان سے کئی ادارے شامی مسلمانوں تک مالی امداد پہنچانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ ہم ان میں سے کسی بھی ادارے کا انتخاب کر کے شامی بہن بھائیوں کی کفالت میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ اگر اور کچھ نہیں تو کم از کم دعا تو ضرور کر سکتے ہیں: