↧
ریاست کا انتظار کیوں کرتے ہو ؟
اب بچے تو غلطیاں ہی کرتے رہتے ہیں۔ ہر بھول چوک پر سرزنش تو نہیں ہو سکتی۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ میاں کینیڈی کوئی ننھے بچے تو تھے نہیں جب وہ امریکا کے صدر بنے اور حلف برداری کے بعد کہا ’’ یہ مت پوچھو کہ ملک تمہارے لیے کیا کر سکتا ہے۔ یہ پوچھو کہ تم ملک کے لیے کیا کر سکتے ہو‘‘۔ ( یہ پورا قصہ آپ کرس میتھیوز کی کتاب ’’جیک کینیڈی۔ الیوسیو ہیرو‘‘ میں پڑھ سکتے ہیں)۔ مذکورہ بالا قول کسی کا بھی ہو مگر ہے بہت شاندار۔ کیونکہ یہ بات طے ہے کہ ترقی یافتہ ریاست بھی اپنے تمام شہریوں کو یکساں سہولتیں فراہم نہیں کر سکتی۔ ریاستوں کی اکثریت میں تو خیر عوامی اکثریت کو بھی بنیادی سہولتیں میسر نہیں لیکن جو فلاحی ریاستیں ہونے کی دعوے دار ہیں وہاں بھی کوئی نہ کوئی طبقہ یا علاقہ بنیادی سہولتوں سے باہر رہ جاتا ہے۔ مثلاً میں نے معیارِ زندگی کے عالمی جائزوں میں ہمیشہ اول یا دوم آنے والے کینیڈا میں ٹورنٹو یونیورسٹی کے باہر نیٹیو انڈینز کو فٹ پاتھ پر سوتے یا کسی ستون کے سہارے بے سہارا بیٹھے دیکھا۔
↧