Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

میڈیکل ڈپلومیسی ۔ چین کی نئی حکمت عملی

$
0
0

31 دسمبر 2019ء سے 19 مارچ 2020ء۔ یہ 80 دن۔ جن کا ایک ایک لمحہ تاریخ میں سنہرے الفاظ سے قلمبند کیا جائے گا۔ اور آئندہ کسی بھی بحران سے نبرد آزمائی میں ان دنوں میں چین کی حکمت عملی ہر قوم کے لیے رہنما خطوط کی حیثیت رکھے گی۔ چین کے لیے بھی یہ نیا وائرس اجنبی تھا۔ جس کی کوئی ویکسین نہیں تھی۔ امریکہ سمیت دنیا بھر کے ماہرین نے اعتراف کیا ہے کہ مقابلے کا چینی ماڈل لائق تقلید ہے کہ نہ صرف اپنے ہاں قابو پایا بلکہ دوسری قوموں کو طبی سامان کی فراہمی اور معلومات میں شراکت جاری رکھی۔ میں نے مائوزے تنگ کا چین بھی دیکھا۔ 1972ء میں بھٹو صاحب کے ساتھ جانے کا اتفاق ہوا۔ چو این لائی سے مصافحہ بھی کیا۔ پھر بدلتے ہوئے چین کو 1989ء میں دیکھا۔ 2005ء اور 2007 ء میں بھی بالکل بدلے ہوئے چین کا مشاہدہ کیا۔ حکومت اب تک اسی کمیونسٹ پارٹی کی ہے۔ 

اب بھی یہ پارٹی سوشلزم کی تعمیر کا نصب العین رکھتی ہے۔ لیکن اس امر پر زور ہے کہ سوشلزم چینی خصوصیات کیساتھ۔ ایک خاص بات یہ کہ چینی میڈیا میں صدر شی کو صرف چین کا صدر نہیں بلکہ سیکرٹری جنرل کمیونسٹ پارٹی آف چائنا اور چیئرمین ملٹری کمیشن لازمی لکھا جاتا ہے۔ یہ وبا پھوٹی تو سماجی فاصلے اور لاک ڈائون کو اولیں اہمیت دی گئی۔ مقامی حکام کیساتھ پارٹی کارکنوں اور عہدیداروں کو بھی یہ فرض سونپا گیا کہ وہ ان پابندیوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ چین کی ایک بڑی انٹرنیٹ کمپنی نے جنوری 2019 اور جنوری 2020 میں انسانی نقل و حرکت کا موازنہ کیا ہے۔ ایئرپورٹ۔ بس اسٹینڈ۔ ریلوے اسٹیشن بند ہونے سے بہت فرق پڑا۔ یہ سخت اقدامات نہ ہوتے تو وبا کا پھیلائو 67 گنا زیادہ ہوتا۔ اور کم از کم 80 لاکھ افراد متاثر ہوتے۔ چینی عوام نے بھی لاک ڈائون کو خوشدلی سے قبول کیا۔ 

چین پوری دنیا کے لیے فیکٹری پہلے سے ہی بنا ہوا تھا۔ اب وہ ووہان کے شہریوں کی ضروریات کے لیے 24 گھنٹے چلنے والی فیکٹری بن گیا۔ ضروری طبی سامان۔ ماسک۔ میڈیکل اسٹاف کی کٹس۔ جنگی بنیادوں پر تیار کی گئیں۔ چین کی تیز رفتار مسلمہ ہے۔ 1000 بستروں کا اسپتال کتنی سرعت سے تعمیر کیا گیا۔ جدید ترین ٹیکنالوجی سے بھرپور فائدہ اٹھایا گیا۔ مریضوں کی مانیٹرنگ۔ مرض کا سراغ لگانے میں جدید آلات کو بروئے کار لایا گیا۔ ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ کورونا کے مہلک مرض سے صحت یاب ہونے والوں کی خبریں اور کہانیاں تفصیل سے نشر کی گئیں۔ چین کے جو علاقے وبا سے محفوظ تھے۔ وہاں تجارت۔ تعلیم۔ کاروبار معمول کے مطابق جاری رکھا گیا بلکہ یہاں کے کارخانوں سے ووہان کے رہائشیوں کی ضروریات پوری کی گئیں۔ محفوظ علاقوں سے ڈاکٹرز اور رضا کار بھی متاثرہ علاقوں میں جاکر خدمات انجام دیتے رہے۔ 

مگر تمام ضروری حفاظتی تدابیر کے ساتھ یہ لائق مطالعہ اور واجب تحقیق ہے کہ مقامی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ چینی کمیونسٹ پارٹی بھی اس جنگ میں بھرپور شریک رہی ہے۔ شروع میں ووہان کی تنظیم نے کسی حد تک غفلت کا مظاہرہ کیا۔ مگر بعد میں وہ بھی دن رات اس مشن میں مصروف رہی۔ مقامی حکام اور پارٹی کارکنوں کا یہ اشتراک ہر ملک کے لیے لائق تقلید ہو سکتا ہے۔ نئی چینی قیادت کی پالیسی یہ رہی ہے کہ چین کا خواب صرف چین کے عوام کے لیے نہیں بلکہ دوسری قوموں کے لیے بھی فائدہ مند ہو گا۔ ایک سڑک ایک پٹی کا فلسفہ بھی یہی ہے۔ ووہان کے کامیاب تجربے کے چھ نکات کو چین کی خواہش ہے کہ دوسرے ملک بھی اپنائیں۔

1۔ اطلاع فوراً جاری کی جائے۔
2۔ سماجی فاصلہ اور ٹریفک کنٹرول۔
3۔ عام لوگوں کی جانچ پڑتال۔ اسکریننگ۔ ٹیسٹ۔
4۔ علاج کے منصوبے اور تحقیق۔
5. وسائل کی تخصیص اور یقینی فراہمی۔
6۔ مرکزی کمانڈ سسٹم اور حساس حکمت عملی۔
چین کا ایک میڈیا تھنک ٹینک ہر روز 60 ماہرین کے انٹرویو نشر کرتا رہا۔ جن میں چینی ماہروں کے علاوہ۔ بین الاقوامی طبّی ماہرین شامل رہے۔

ان خطوط اور پابندیوں پر سختی سے عملدرآمد سے ہی 30 دن میں چین کو سرخروئی حاصل ہو گئی۔ اب ووہان کو پورے چین میں ایک مثالی حیثیت میسر آگئی ہے۔ ووہان کو بہادروں کا شہر کہا گیا ہے۔ جہاں نوجوان بزرگ کوئی بھی اس خطرے اور مشکل کے سامنے عجز کا شکار نہیں ہوئے۔ اس کامیابی کے بعد چینی صدر کمیونسٹ پارٹی اور حکام چین سے نہیں بیٹھ گئے۔ بلکہ اب غربت بے روزگاری کے خاتمے کے لیے مختلف علاقوں کے دورے کیے جارہے ہیں۔ اور یہ پالیسی اختیار کی جارہی ہے کہ صنعتی پیداوار اپنی جگہ ہے لیکن انسانی صحت کو برتری حاصل رہے گی۔ ووہان سے اس سال 3 لاکھ 17 ہزار کالج گریجویٹ پاس ہو رہے ہیں۔ ان میں سے ڈھائی لاکھ کو ملازمتوں کی پیش کر دی گئی ہے۔ اس اعلان سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ نفسیاتی طور پر کتنی حوصلہ افزائی ہوئی ہو گی۔

چین کے ان 80 روزہ کامیاب تجربات کے بعد انڈونیشیا سے کینیڈا تک یہ تجزیہ کیا جارہا ہے کہ کیا کورونا وبا پھر دنیا کو دو بلاکوں میں تقسیم کر دے گی۔ ایک بلاک کی قیادت تو یقیناً چین کے سپرد ہو گی دوسرا بلاک لیڈر کون ہو گا۔ یہ تاثر عام ہے کہ اب امریکہ سپر طاقت نہیں رہے گا۔ کیونکہ صدر ٹرمپ نے اس میڈیکل بحران میں ایک عالمی لیڈر تو کجا ایک مقامی لیڈر کا کردار بھی ادا نہیں کیا۔ امریکہ اور چین میں اس وبا کے حوالے سے سرد جنگ تو شروع ہو چکی ہے۔ یورپی یونین نے ابھی تک نہ چین کا موقف اپنایا ہے اور نہ ہی امریکہ کا۔ یورپی ماہرین کا یہ استدلال رہا ہے کہ چین امریکہ کی طرح بالادستی نہیں چاہتا۔ چین نے حال ہی میں جی 20 یعنی امیر ملکوں کے اجلاس کے لیے چار تجاویز دی ہیں۔ 1۔ کورونا کے خلاف جنگ کا پختہ عزم۔ 2۔ علاج اور کنٹرول کے لیے اجتماعی اقدامات۔ 3۔ مقامی تنظیموں کی بھرپور مدد۔ 4۔ بین الاقوامی سطح پر اقتصادی پالیسیوں میں ہم آہنگی اور کامیاب میڈیکل ڈپلومیسی کے لیے یہ پیغام کہ سائنسدانوں اور سفارت کاروں کے درمیان فعال شراکت سے عالمگیر سائنس عوام کے مفاد میں آگے بڑھ سکتی ہے۔

محمود شام

بشکریہ روزنامہ جنگ


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>