Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

بھارتی مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں مہاجرین بننے کا خوف کیوں ؟

$
0
0

بھارت اس وقت ایک بہت بڑے عوامی احتجاج کی لپیٹ میں ہے۔ یہ سنہ 1970 کے بعد سے سب سے بڑا احتجاج ہے، جب اس وقت اندرا گاندھی نے ملک گیر احتجاج کو ختم کرنے کے لیے بدنامِ زمانہ ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت ملک کے طول و عرض میں سینکڑوں کی تعداد میں ریلیوں، احتجاج اور دھرنوں کا انعقاد ہو چکا ہے اور یہ تب سے ہو رہا ہے جب سے نریندر مودی کی حکومت نے ایک بل پاس کیا ہے جو سوائے مسلمانوں کے، مختلف مذاہب کے ماننے والے تارکینِ وطن کو شہریت دینے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ بل کا دفاع کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ ضروری تھا کہ بھارت آنے والے ان لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جائے جو پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے اکثریتی ہمسایہ ممالک کے ہاتھوں مذہب کے نام پر ظلم و ستم کا شکار بنے ہوں، لیکن نقادوں کی نظر میں سٹیزن امینڈمنٹ ایکٹ (سی اے اے) یعنی شہریت کا ترمیمی بل مودی کی قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی اس منزل کی طرف ایک بڑا قدم ہے جو سیکولر ہندوستان کو ایک ہندوانہ ملک بنا سکے۔

مودی نے پچھلے سال انتخابات میں دوسری بار واضح برتری حاصل کرنے کے بعد کشمیر کی خود مختار حثیت ختم کرنے سے لے کر بابری مسجد کے مسمار ہونے والی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کے وعدے تک ان پالیسیوں کو فروغ دیا ہے جو مڈل کلاس قوم پرست ہندوؤں کو پسند ہیں۔ اب تک کشمیر، بابری مسجد اور یہاں تک کہ آسام میں شہریوں کے اندراج کا قومی رجسٹر (این آر سی) لاگو کرنے کے واقعات ہونے کے بعد بھی بائیں بازو اور اقلیتی برادری والے عموماً خاموش ہیں۔
لیکن جب سے 13 دسمبر کو سی اے اے کے قانون کا نفاذ ہوا ہے، تب سے ایک بدلاؤ سا آگیا ہے۔ یونیورسٹی کیمپسوں پر پولیس کے حملوں اور خونریز تصادم کے نتیجے میں ہونے والے اموات نے اگر ماضی میں اندرا گاندھی دور کے ہندوستان کی یاد نہیں دلائی تو موجودہ دور میں ہانگ کانگ میں ہونے والے واقعات کی یاد ضرور تازہ کی ہے۔ 

ایک طرف جہاں مظاہرین، کارکنان اور اقلیتی برادری کے رہنماؤں نے انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے سی اے اے قانون کو نقطہ آغاز کہا ہے، وہیں دوسری طرف پولیس کی طرف سے مظاہروں کو بھونڈے انداز میں کنٹرول کرنے اور نوآبادیاتی طرز کے کرفیو کے استعمال نے نفرت کے شعلوں کو مزید بھڑکانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ یہ معلوم کرنے کے لیے کہ اس تحریک کی اتنی حوصلہ افزائی کیسے ہو رہی ہے؟ انڈپینڈنٹ نے ان کارکنان، خواتین اور بچوں سے بات کی ہے جو یا تو بھارت کی شہریت تنازع کے سلسلے میں گرفتار ہوئے ہیں یا ابھی اس تحریک کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ دیپک کبیر اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کی معروف شخصیت ہیں۔ نرم گو سٹیج ڈائریکٹر، صوفی میوزک کے سالانہ تہوار کے منتظم، لمبے بال اور سر پر خاص قسم کا کیپ پہنے، دیپک کبیر ہر لحاظ سے ایک ثقافتی کارکن نظر آتے ہیں۔

کبیر کا کہنا ہے کہ سی اے اے قانون کے نفاذ کے ایک ہفتے بعد 20 دسمبر کو انہیں شہر میں ہونے والے خونریز مظاہروں کا سرغنہ بنا کر قریبی تھانے کے ایک کمرے میں لے جایا گیا، جہاں ایک درجن سے زیادہ پولیس اہلکاروں نے ان کو مارا پیٹا اور بار بار تشدد کیا۔ انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے دیپک کبیر نے بتایا کہ ہو سکتا ہے ایک مخصوص لمحہ ہو جب شہریت بل مخالف مظاہروں نے باقی بھارت کے مقابلے میں اتر پردیش میں ایک دم سے زیادہ شدت اختیار کی ہو۔
انہوں نے کہا: ’اس ریاست میں 19 دسمبر کا دن ہمارے لیے بہت اہم ہے خاص کر لکھنؤ شہر کے لیے کیونکہ اس دن ہم ان تین انقلابیوں کی برسی مناتے ہیں، جنہیں 1927 میں قابض انگریز حکومت نے پھانسی پر چڑھایا تھا۔ مقامی طور پر یہ دن ’یومِ شہدا‘ کہلاتا ہے۔ اس دن کے موقع پر نکالی جانے والی ریلی کو روکنے کے لیے یہاں کے اداروں نے نو آبادیاتی طرز کی دفعہ 144 کے نفاذ کا اعلان کیا، جس کے مطابق امن و امان متاثر ہونے کے ڈر سے چار یا چار سے زیادہ لوگ ایک جگہ اکٹھے نہیں ہو سکتے۔

کبیر نے بتایا: ’لیکن تب بہت دیر ہو چکی تھی۔ ہمارا خیال تھا کہ اس صورت حال میں دو سے تین ہزار کے قریب لوگ مشکل سے اکٹھے ہوں گے لیکن اس دن پانچ سے چھ لاکھ لوگ آگئے جن میں بچے، بڑے، بوڑھے، جوان، ہندو، مسلمان، مرد، خواتین سب شامل تھیں۔‘ یہاں ایسے کوئی ذرائع نہیں ہیں کہ کبیر کی بتائی ہوئی تعداد کی تصدیق ہو سکے لیکن بعد میں پولیس نے تصدیق کر دی کہ پورے صوبے میں پر تشدد واقعات میں ملوث ہونے کے شبہ میں 1113 لوگوں کو گرفتار کیا گیا جس سے یہاں ہونے والے ہنگاموں کی شدت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اب تک ہونے والی شہریت مخالف جھڑپوں میں اترپردیش سب سے زیادہ متاثر رہا، جہاں سی اے اے بل پاس ہونے کے ایک ماہ کے بعد کے عرصے میں پوری ریاست میں کم از کم 23 افراد ہلاک ہوئے۔

مہرونی شاہ کہتی ہیں کہ وہ کالے قوانین کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں اور ان جیسے اور قوانین کے خلاف بھی جو ابھی آنے ہیں، جن سے عام تاثر یہی جا رہا ہے کہ بی جے پی کی حکومت اپنے وژن کے مطابق بھارت کے ہندوؤں کے لیے مزید ایسے قوانین لائے گی۔ ’یہ ہمارے بچوں کا مستقبل، ان کی تعلیم اور شہریت کے حقوق چھین رہے ہیں۔ ہم یہاں بیٹھے ہیں کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ کل ہمارے بچے اپنے ہی ملک میں مہاجر بنیں، ہم یہ لڑائی جاری رکھیں گے۔‘ دھرنے میں موجود کچھ لوگ زندگی میں پہلی بار احتجاج کرنے نکلے ہیں اور انہیں پہلے کبھی بھی اس قسم کی بھوک ہڑتال کا سامنا نہیں رہا، بے شک یہ پچھلے 50 دن سے جاری کیوں نہ ہو۔ ان میں سے اکثر 12 سے 14 گھنٹے بھوک ہڑتال پر ہوتے ہیں اور پھر سونے سے پہلے صرف ایک وقت کا کھانا کھاتے ہیں۔ 47 سالہ شاہین بی بی نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ انہوں نے پہلی بار ان مظاہروں میں تب شرکت کرنے کا فیصلہ کیا جب 15 دسمبر کو پولیس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی (جے ایم آئی) کے طلبہ پر آنسو گیس کا استعمال اور لاٹھی چارج کیا تھا۔

’پہلے بھی احتجاج ہوتے رہتے ہیں لیکن ہم نے کبھی بھی اس قسم کا بد ترین تشدد نہیں دیکھا۔ یہ محض لاٹھی چارج نہیں تھا بلکہ پولیس نے لوگوں پر گولیاں چلائی، لڑکیوں کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا اور لائبریری میں گھس کر بچوں، خواتین اور لڑکیوں پر بدترین تشدد کیا۔‘ ’ہمارے بچے اب سمجھدار ہو گئے ہیں۔ وہ یہ سب دیکھ رہے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کر رہی ہے جو کہ ہمارے مفاد میں نہیں ہے، اس لیے یہ طلبہ احتجاج کرنے نکلے ہیں، لیکن بدلے میں ان پر تشدد ہو رہا ہے، اس لیے اب ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں کیونکہ یہ ہمارا مستقبل ہے۔ یہ ہمارے لیے کھڑے ہوئے تھے اور اب ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘ شاہین باغ کا احتجاج شروع کرنے والی تین، چار خواتین میں سے ایک 37 سالہ شفینہ اجمل بھی ہیں، جو جے ایم آئی میں تدریس سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ ان متاثرین میں سے ہیں جب پولیس دسمبر کے مہینے میں تشدد کرنے کیمپس کے اندر داخل ہوئی تھی۔ ’اس وقت جب پولیس لائبریری میں گھس گئی تو ہم مسجد میں چھپ گئے، لیکن وہ مسجد میں بھی آگئے اور ہمیں مارنا شروع کیا۔ وہ چلا رہے تھے، گالیاں بھی دے رہے تھے۔ میری دونوں ٹانگیں ایک پولیس آفیسر کی لاٹھیاں مارنے سے زخمی ہو گئی تھیں۔‘

’یہ وہ پہلا قدم تھا جب ہم اس احتجاج میں آگئے کیونکہ اب ہم اس کو مزید برداشت نہیں کریں گے۔ پہلے ہم چار خواتین احتجاج کرنے آئی تھیں۔ بعد میں مزید خواتین بھی آگئیں اور اب آپ دیکھیں کہ کتنا بڑا ہجوم جمع ہے یہاں۔‘ شفینہ اجمل کہتی ہیں کہ میڈیا مسلمانوں کو ایک ناقابلِ برداشت قوم کے طور پر پیش کر رہا ہے، لیکن ہم نے سب کچھ برداشت کیا، تب تک جب سی اے اے کا قانون آگیا جس سے ان کا اصل چہرہ سامنے آگیا۔ اس قانون نے نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ پورے بھارت کو اشتعال دلایا۔ ہم ان میں سے ایک چھوٹا سا حصہ ہیں جنہوں نے اس قانون کے خلاف احتجاج شروع کیا ہے۔‘ سی اے اے قانون پاس ہونے کے بعد سب سے شرمناک واقعہ اس وقت رونما ہوا جب 20 دسمبر کو اتر پردیش کے ضلع مظفرنگر میں سینکڑوں مسلمان مردوں اور بچوں کو پولیس نے حراست میں رکھا۔ میڈیا نے بھی زیر حراست لوگوں پر تشدد کے کئی واقعات رپورٹ کیے ہیں۔ اس قسم کے واقعات، جن کا ذکر کارکن کبیر نے بھی کیا تھا، شاید نہ ہو پاتے اگرایک دن پہلے بی جے پی کے لاڈلے، جنگجو ہندو راہب اور اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ اس معاملے پر بیان بازی نہ کرتے۔

سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے بارے میں یوگی نے صحافیوں کو بتایا: ’ہم نے ویڈیو کے ذریعے مظاہرین کی نشاندہی کی ہے اور ہم ان سے اپنا بدلہ لیں گے۔‘ غیر سرکاری تنظیم کاروانِ محبت کے مطابق محمود نگر کا 14 سالہ سلیم اپنے بارے میں بتاتے ہیں کہ مظفر نگر میں دن تین بجے انہیں اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ جمعے کی نماز سے واپس گھر جا رہے تھے اور پھر انہیں بغیر کسی الزام کے چار دن تک حراست میں رکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے پڑوس میں افراتفری کے مناظر تھے اور اس کا بھائی بھی لاپتہ ہو گیا تھا۔ ’جیسے ہی میں اپنے بھائی کے تلاش میں گھر سے نکلا تو چاروں طرف سے پولیس آگئی، مجھے پکڑ لیا اور بری طرح ڈنڈوں سے مارا پیٹا۔‘

سلیم کہتے ہیں کہ انہوں نے پولیس والوں کو بتایا کہ وہ چھوٹے ہیں، اس لیے انہیں ان کے والدین کو بلانا چاہیے، لیکن پولیس والوں نے اس پر کوئی دھیان نہیں دیا اور ان سے قسمیں اٹھواتے رہے۔ سلیم نے اپنے ہاتھ کے زخم دکھاتے ہوئے کہا کہ پھر انہوں نے گلی میں جلنے والی آگ سے لوہے کی ایک راڈ اٹھائی۔ ’انہوں نے وہ راڈ میرے ہاتھ پر رکھی۔ وہ مجھے مارتے جا رہے تھے اور اس کوشش میں تھے کہ مجھے آگ میں پھینک دیں۔ پھر ان میں سے دو پولیس والوں نے یہ کہتے ہوئے مجھے بچایا کہ اسے آگ میں مت پھینکو بلکہ گاڑی میں ڈالو۔‘
سلیم کہتے ہیں کہ پولیس حراست میں لے جاتے وقت وہ روئے۔ انہیں امید تھی کہ وہاں بنیادی کارروائی ختم ہونے کے بعد وہ اپنے والدین کو اطلاع دے پائیں گے۔ ’انہوں نے مجھے کئی بار مارا پیٹا، ایک بار تو ڈیڑھ گھنٹے تک مارتے رہے۔ وہ مجھ سے 100 لوگوں کے نام مانگ رہے تھے جو مظاہروں کی جگہ موجود تھے لیکن میں نے انہیں بتایا کہ میں وہاں کسی کو نہیں جانتا۔‘

سلیم کہتے ہیں کہ وہ مار پیٹ کے ساتھ ساتھ گالیاں بھی دے رہے تھے، جس سے پولیس تشدد میں اسلام فوبیا فطرت نمایاں ہو رہی تھی۔ ’جیسے جیسے وہ ہمیں مارتے رہے ساتھ ساتھ ہمیں یہ نعرہ لگانے کو کہتے کہ ’بولو جے شری رام‘، وہ گالیاں دیتے رہے اور پوچھتے رہے، ’کیا تمہارا اللہ تمہیں بچانے آئے گا؟ چلو دیکھتے ہیں۔‘ سلیم کی گواہی کو پچھلے ماہ اتر پردیش میں ریاستی ایکشن پر پیپلز ٹریبونل کی کارروائی کا حصہ بنا دیا گیا۔ یہ ایک دن کی عدالتی کارروائی تھی تاکہ شہریت مخالف مظاہروں کے دوران ہونے والے پولیس تشدد کی تحقیقات کی جاسکیں۔ وزیر اعظم کے حلقے ورانسی سے تعلق رکھنے والے ایک گواہ نے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس کی لاٹھی چارج کی وجہ سے ایک آٹھ سالہ بچے کی موت واقع ہوئی۔ ایسا ہی ایک واقعہ 20 دسمبر کو بھی پیش آیا جب باجردیا ضلع میں مظاہرین سی اے اے کی مخالفت میں اکٹھے ہو گئے تھے۔

گواہ کا کہنا تھا کہ ’پولیس نے لاٹھی چارج کے دوران ان کے سر اور جسم کے اوپر والے حصوں کو نشانہ بنایا اور مظاہرین پر پتھراؤ بھی کیا۔ یہ قومی، بین الاقوامی قوانین اور پولیس ہدایات کے خلاف ہے، کیونکہ پولیس طاقت کا استعمال آخری آپشن کے طور پر کرتی ہے لیکن باجردیا کے علاقے میں طاقت کو دوسرے آپشن کے طور پر استعمال کیا گیا۔ انہون نے ہمیں بتایا کہ احتجاج بند کرو اور جب ہم نے انکار کیا تو انہون نے بد ترین چڑھائی شروع کر دی۔ وہاں راستے بہت تنگ تھے اور لوگ افراتفری کے عالم میں ایک کھلی جگہ کی طرف بھاگنے لگے جہاں کچھ بچے کھیل رہے تھے۔ اس بھگدڑ کی وجہ سے آٹھ سالہ محمد صغیر کی موت واقع ہوئی جو اپنے گھر کے سامنے اپنی سائیکل کے ساتھ کھیل رہے تھے۔

کاروانِ محبت این جی او کے ایک منتظم سرور مندر نے جیوری کو بتایا کہ پولیس کی پہلی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ ایسی صورت حال میں بچوں کی نشاندہی کر کے ان کی حفاظت یقینی بنائے۔ لیکن اتر پردیش سے ملنے والے تمام ثبوتوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں جہاں کسی چھوٹے بچے کو گرفتاری کے بعد کسی مخصوص ریاستی جوینائل (نوعمر) پولیس یونٹ کے حوالے کیا گیا ہو یا بچوں کے لیے مختص کسی تنظیم کے حوالے کیا گیا ہو۔ ’ہر بار بچوں کو بڑوں کے ساتھ ڈالا گیا یا تھانے کے اندر رکھا گیا اور کچھ واقعات میں 24 گھنٹے سے زیادہ حوالات کے اندر رکھا گیا۔ اکثر بچوں کو بغیر کوئی الزام لگائے چھوڑ دیا گیا، جبکہ ان کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ پولیس نے ان بچوں کی گرفتاری کے بعد ان کے ٹھکانوں کے بارے میں والدین سے سب کچھ چھپائے رکھا، لیکن ان میں اہم پہلو پولیس کی طرف سے بچوں پر بد ترین تشدد ہے۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ پولیس نے ہر علاقے میں حراست کے دوران اور بعد میں ان بچوں کو زبانی، جسمانی اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔‘

پیپلز ٹریبونل کی جیوری میں سپریم کورٹ کے دو سابق جج، ماہرِ تعلیم، خیراتی اداروں کے سربراہ اور سابق سرکاری ملازمین شامل تھے۔ سات گھنٹے کی سماعت کے بعد ان ارکان پر مشتمل پینل نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا: ’ہم اس بات پر قائل ہو چکے ہیں کہ ریاستی مشینری نے اوپر سے نیچے تک سنگین تعصب کا مظاہرہ کیا ہے اور ایک خاص برادری پر تشدد کرنے کی مرتکب ہوئی ہے، یعنی مسلمان آبادی پر اور وہ سماجی کارکن جو اس تحریک کی سربراہی کر رہی تھیں۔‘ آخر میں پینل نے کہا کہ ’مظاہروں کے ردعمل میں پولیس کا کردار اتر پردیش میں قانون کی حکمرانی کی مکمل ناکامی تھی اور ریاستی مشینری جس کا کام قانون کی حکمرانی بحال رکھنا ہوتا ہے، خود ہی اپنے لوگوں پر تشدد کرنے کی مرتب ہوئی ہے۔‘ تاریخ دان اور سیکولرزم کے سرکردہ محافظ پروفیسر ابراہیم کا کہنا ہے کہ ’ان سمیت جیوری کے باقی ارکان فراہم کردہ ثبوتوں سے کافی متاثر ہوئے۔ جو کچھ سی اے اے قانون کے تناظر میں سامنے آیا ہے اس نے ہمارے آئین کا تمسخر اُڑایا ہے اور اس نے نہ صرف برطانوی راج کی بلکہ نازی جرمنی کی بھی یاد دلائی۔ یہ صرف اتر پردیش کی نہیں بلکہ پوری قوم کی لڑائی ہے۔‘

ایڈم وِٹنال 

بشکریہ دی انڈپینڈنٹ
 


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>