↧
بھارتی مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں مہاجرین بننے کا خوف کیوں ؟
ایک طرف جہاں مظاہرین، کارکنان اور اقلیتی برادری کے رہنماؤں نے انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے سی اے اے قانون کو نقطہ آغاز کہا ہے، وہیں دوسری طرف پولیس کی طرف سے مظاہروں کو بھونڈے انداز میں کنٹرول کرنے اور نوآبادیاتی طرز کے کرفیو کے استعمال نے نفرت کے شعلوں کو مزید بھڑکانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ یہ معلوم کرنے کے لیے کہ اس تحریک کی اتنی حوصلہ افزائی کیسے ہو رہی ہے؟ انڈپینڈنٹ نے ان کارکنان، خواتین اور بچوں سے بات کی ہے جو یا تو بھارت کی شہریت تنازع کے سلسلے میں گرفتار ہوئے ہیں یا ابھی اس تحریک کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ دیپک کبیر اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کی معروف شخصیت ہیں۔ نرم گو سٹیج ڈائریکٹر، صوفی میوزک کے سالانہ تہوار کے منتظم، لمبے بال اور سر پر خاص قسم کا کیپ پہنے، دیپک کبیر ہر لحاظ سے ایک ثقافتی کارکن نظر آتے ہیں۔
پیپلز ٹریبونل کی جیوری میں سپریم کورٹ کے دو سابق جج، ماہرِ تعلیم، خیراتی اداروں کے سربراہ اور سابق سرکاری ملازمین شامل تھے۔ سات گھنٹے کی سماعت کے بعد ان ارکان پر مشتمل پینل نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا: ’ہم اس بات پر قائل ہو چکے ہیں کہ ریاستی مشینری نے اوپر سے نیچے تک سنگین تعصب کا مظاہرہ کیا ہے اور ایک خاص برادری پر تشدد کرنے کی مرتکب ہوئی ہے، یعنی مسلمان آبادی پر اور وہ سماجی کارکن جو اس تحریک کی سربراہی کر رہی تھیں۔‘ آخر میں پینل نے کہا کہ ’مظاہروں کے ردعمل میں پولیس کا کردار اتر پردیش میں قانون کی حکمرانی کی مکمل ناکامی تھی اور ریاستی مشینری جس کا کام قانون کی حکمرانی بحال رکھنا ہوتا ہے، خود ہی اپنے لوگوں پر تشدد کرنے کی مرتب ہوئی ہے۔‘ تاریخ دان اور سیکولرزم کے سرکردہ محافظ پروفیسر ابراہیم کا کہنا ہے کہ ’ان سمیت جیوری کے باقی ارکان فراہم کردہ ثبوتوں سے کافی متاثر ہوئے۔ جو کچھ سی اے اے قانون کے تناظر میں سامنے آیا ہے اس نے ہمارے آئین کا تمسخر اُڑایا ہے اور اس نے نہ صرف برطانوی راج کی بلکہ نازی جرمنی کی بھی یاد دلائی۔ یہ صرف اتر پردیش کی نہیں بلکہ پوری قوم کی لڑائی ہے۔‘
↧