Quantcast
Channel: Pakistan Affairs
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان

$
0
0

جب دلوں کی ڈور جڑتی ہے وہ لے جاتی ہے ترقی، چاہت و الفت بلندی تک، وقت کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں ترقی کی شمع روشن ہوتی ہے۔ عوام کو اپنے خوابوں میں اکثر ایک چہرہ دکھتا ہے جس میں اپنے ملک و ملت کا دکھ درد زندگی کے ہر موڑ پر اپنی عوام کو خوشحال بنانے کا مصمم ارادہ ہو، جس نے ہر خوشی اور غم میں اپنا نام لکھا ہے جو نمایاں ہے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ 26 فروری 1954ء کو استنبول شہر کے کچھ فاصلے پر موجود ایک چھوٹے سے شہر قاسم پاشا میں صدر رجب طیب اردوان پیدا ہوئے۔ انکے والد کا نام احمد اردوان تھا۔ رجب طیب اردوان کے آباؤ اجداد سلطنت عثمانیہ کے دور حکومت میں جارجیہ میں رہا کرتے تھے۔ 1870ء میں عثمانیوں کی روسیوں سے جنگ شروع ہوئی تو طیب اردوان کے آباؤ اجداد ترکی ہجرت کر گئے۔ 

جو لوگ اسلام کے پاس ہوتے ہیں انھیں اسلامی اور اسلام کی طرز زندگی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے رجب طیب اردوان کے آباؤ اجداد جارجیہ میں رہا کرتے تھے، جہاں ان کے ساتھ آبادی کی اکثریت عیسائیوں کی تھی۔ رجب طیب اردوان کے خاندان میں اسلامی طرز زندگی رچ بس گئی تھی والدین نے اسی روش پر تربیت کی۔ جب چھوٹے تھے ان کے گھر کے حالات بہتر نہ تھے، ان کے والد ایک پھل فروش تھے۔ طیب اردوان نے بچپن میں ایک مدرسے میں داخلہ لیا جہاں وہ عربی کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ رجب طیب اردوان خود بتاتے ہیں کہ ’’جب میں مدرسے جایا کرتا تو راستے میں کئی لوگ مجھے کہا کرتے بیٹا! کسی اچھے اسکول میں داخلہ لے لو، مدرسے میں پڑھنے کے بعد تمہیں نہلانے تو مردے ہیں، مگر میں ان کی باتوں کی پرواہ نہ کرتا اور چلتا چلا جاتا۔‘‘

 وہ جب مدرسے سے گھر آتے تو لیمو کے شربت کا ٹھیلہ لگاتے جس سے ان کا گزر بسر ہو جاتا۔ 1973ء میں رجب طیب اردوان نے قرآن پاک حفظ کر لیا۔ ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی۔ 1978ء میں انھوں نے شادی کر لی چار بچے پیدا ہوئے۔ بڑے بیٹے کا نام اپنے والد کے نام پر احمد اردوان رکھا، دوسرے بیٹے کا نام بلال جب کہ مزید انکے ہاں دو بیٹیاں بھی ہوئیں۔ 1981ء میں رجب طیب اردوان نے مرمرہ یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کی۔ رجب طیب اردوان کا مدرسے میں تعلیم حاصل کرنا ان کے اسلام سے لگاؤ کی ایک بڑی وجہ تھی۔ 70ء کی دہائی میں جب دشمنوں، صیہونی طاقتوں نے ترکش قوم کو اسلام سے کوسوں دور کر دیا تھا رجب طیب اردوان نے اسٹوڈنٹ یونین میں شمولیت اختیار کی، وہ اسلام مخالف ہونیوالے ہر کام کی مخالفت کرتے رہے۔ 1974ء میں وہ اسلامی نیشنل پارٹی کے سربراہ مقرر ہوئے۔ 

سنہ 1991ء میں وہ پہلی بار سیاست میں آئے۔ یہ وہ دور تھا جب ترکش قوم پاکستانیوں کی طرح دیگر ممالک میں جا کر ملازمت کرتی تھی۔ ترکی کا صرف 3 فیصد حصہ یورپ میں آتا ہے ترکی میں خواتین کو اسکارف پہننے پر پابندی عائد تھی۔ مسلم دشمن، صیہونی طاقتیں چاہتی تھیں کہ ترکش کو برائیوں کی طرف دھکیلا جائے یہ کام جاری تھا۔ عوام کو ورغلایا جا رہا تھا یورپی ماحول، عیش و تعیش کے سبز باغات دکھا کر بربادی کے دہانے پر لایا جا رہا تھا۔ جنگ عظیم اول کے خاتمے کے بعد زیادہ عرصے تک ترکی پر فوجی حکومت قائم رہی۔ ان عرصوں کے دوران اسلام سے کوسوں دوری اختیار کرتی رہی۔ شروع میں تو حالات یہ ہو گئے تھے کہ مساجد میں اذان عربی کے بجائے مقامی زبانوں میں دی جانے لگی۔ 

اس جنگ عظیم کے دوران جب فرانس میں معاہدہ لوذان ہوا۔ 24 جولائی 1923ء فرانس کے شہر لوذان میں ایک معاہدہ ہوا جس کو معاہدہ لوذان کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ سو سالہ معاہدہ کیا گیا جو 26 جولائی 1923ء سے 25 جولائی 2023ء تک کا ہے۔ اس معاہدے میں دیگر شرائط کے علاوہ ایک شرط یہ بھی تھی کہ ترکی ایک سیکولر ملک بن چکا ہے۔ اس ملک میں اسلام کے پھلنے پھولنے اور اسلامی نفاذ اسلامی تقاریر کرنے پر بھی سخت پابندی عائد کی گئی۔ ملک کی حالت یہ تھی کہ مصروف ترین شہر استنبول گندگی کا ڈھیر بن چکا تھا۔ لوگوں کو صاف پانی میسر نہیں تھا، گلی، محلوں کی حالت ابتر ہو چکی تھی ٹریفک ایک بڑا مسئلہ تھا سڑکوں کی حالت اب جیسی نہ تھی۔ 27 مارچ 1997ء کو رجب طیب اردوان استنبول کے میئر منتخب ہوئے تو انھوں نے بہت جلد استنبول کے مسائل پر قابو پا لیا۔ 

صرف استنبول شہر کے چار سال کے اندر انھوں نے حالات بدل دیے۔ 1998ء میں رجب طیب اردوان نے فنٹامینٹانیس ویلفیئر پارٹی کی بنیاد رکھی۔ دسمبر 1997ء کو رجب طیب اردوان نے ایک ترکی شاعر کی تحریر کردہ نظم کو تھوڑا تبدیل کر کے پڑھا۔ اسلامی تقاریر پر دشمنوں، صیہونی طاقتوں نے پہلے سے سخت پابندی عائد کی ہوئی تھی ایسے وقت میں طیب اردوان نے نظم کو تبدیل کر کے پڑھا۔ اس کا مختصر ترجمہ تھا کہ ’’یہ مساجد ہمارے قلعے ہیں، یہ گنبد ہمارے پہلی بیت ہیں، یہ مینار ہمارے سپاہیوں کی نشانیاں ہیں۔‘‘ اس تقریر کے بعد انھیں استنبول کے میئر سے دستبردار کر دیا گیا۔ رجب طیب اردوان نے ہنسی خوشی اس سزا کو قبول کیا۔ 

سنہ 2001ء میں رجب طیب اردوان نے جسٹس ڈیولپمنٹ پارٹی کی بنیاد رکھی۔ 2002ء میں پہلی بار انھوں نے پارٹی رہنما کی حیثیت سے شمولیت کی۔ رجب طیب اردوان کی پارٹی نے اس انتخابات میں 34.3 فیصد کی شرح سے انتخابات جیت لیے۔ ترکی کے اسٹاک ایکسچینج میں اس ایک یوم میں 7 فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔ مخالف پارٹی نے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ انھیں ملک کا وزیر اعظم بننے سے روک دیا گیا، ان کی وہی پرانی ایک تقریر کی وجہ سے پابندی عائد کر دی گئی۔ رجب طیب اردوان نے اپنے نائب عبداللہ گل کو وزیر اعظم بنا دیا۔ الیکشن کمیشن نے طیب اردوان کی سیٹ کو بھی منسوخ کر دیا۔ 2003 میں جب دوبارہ انتخابات ہوئے تو اس سے پہلے عبداللہ گل نے مخالف جماعتوں کو ساتھ ملا کر قانون میں تبدیلی کر لی۔ 

رجب طیب اردوان پر لگی پابندی ہٹا دی گئی۔ رجب طیب نے 2003 کے انتخابات میں 84 فیصد شرح سے کامیابی حاصل کرتے ہوئے دوبارہ اسمبلی میں شمولیت کر لی۔ نائب عبداللہ گل نے وزارت سے استعفیٰ دیدیا اور رجب طیب ترکی کے وزیر اعظم بن گئے۔ 2007 جب رجب طیب صدارتی انتخابات کے لیے نامزد ہوئے تو ملک میں جگہ جگہ مظاہرے ہوئے۔ رجب طیب نے صدارتی عہدہ عبداللہ گل کے حوالے کر دیا۔ امسال ہونیوالے قومی اسمبلی کے انتخابات بھی ان کی پارٹی 46 فیصد شرح سے ووٹ لے کر کامیاب ہوئی تھی۔ 2011 میں ان کی پارٹی 327 کی نشستوں کی جیت اور 50 فیصد کی شرح سے ووٹ لے کر کامیاب ہوئی۔ 

رجب طیب کو متواتر تیسری مرتبہ ترکی کے وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل ہے۔28 اگست 2014 کو رجب طیب ترکی کے بارہویں صدر منتخب ہوئے۔ ترکی کی تاریخ میں پہلی بار عوام کے ووٹ سے ایک صدر کا انتخاب ہوا۔ 2019 میں ترکی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے اس بار پھر سے ان کی پارٹی واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اب ترکی کے اگلے انتخاب صدر 2023 میں ہونگے۔ آئینی مدت 4 سے 5 سال ہو چکی ہے۔ ترکی کے صدر کا کہنا ہے کہ 2023 کے بعد ترکی پہلے جیسا ترکی نہیں رہے گا۔ 23 جولائی 2023 کو معاہدہ ’’لوزان‘‘ ختم ہو رہا ہے اس کے بعد ترکی قبرص کے مسئلے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریگا۔ اپنے کھوئے ہوئے علاقے واپس لینے کے لیے اپنی جان لگائیگا۔ سلطنت عثمانیہ کے سلطان دوبارہ سے ملک میں واپس آ سکیں گے، بحیرہ فارس سے گزرنیوالے بحری بیڑوں سے ترکی ٹیکس وصول کیا کریگا۔ 

ترکی کو اللہ تعالیٰ نے ایسا حکمران دیا ہے جو صرف ٹیلی ویژن نشریات تک اپنی بات کو محدود نہیں رکھتا۔ ساری دنیا نے دیکھ لیا رجب طیب جو کہتا ہے وہ کر کے بھی دکھاتا ہے۔ اس نے برما میں ہونیوالے مظالم کے خلاف سب سے پہلے نہ صرف آواز اٹھائی بلکہ وہاں امداد بھی بھیجی۔ رجب طیب نے شام کے حل کے سلسلے میں نہ صرف اپنی فوج بھیجی بلکہ امداد بھی دی۔ مسئلہ فلسطین کی آواز، مسئلہ مقبوضہ کشمیر کی آواز عالمی سطح پر بلند کی۔ 2018 میں جب امریکا نے یروشلم شہر کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا تو رجب طیب نے برجستہ اس کی مخالفت کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’یروشلم مسلمانوں کا استنبول ہے، یروشلم مسلمانوں کا مکہ ہے، یروشلم مسلمانوں کا اسلام آباد اور جکارتہ ہے۔‘‘ اگر مسلمانوں کا حال یہی رہا تو کل مکہ اور مدینہ تک ان یہودیوں، عیسائیوں کے قبضے میں چلے جائینگے۔

عالمی سطح پر رجب طیب مختلف ممالک سے بیشمار میڈل اور اعزازات حاصل کر چکے ہیں۔ 2008 میں جب غزہ کی پٹی پر اسرائیل نے حملہ کیا تھا تو رجب طیب نے ورلڈ اکنامکس فورم پر اسرائیل کے صدر کو معصوم بچوں اور خواتین کے قاتل اور قابض کہہ کر پکارا اور اس ملاقات کو چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کے اس کارنامے کو صرف ترکی ہی نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا میں انکا سر فخر سے بلند کر دیا۔ جب وہ واپس اپنے وطن پہنچے تو ترک عوام نے انکا پرتپاک استقبال کیا۔ 15 جولائی 2016 میں جب امریکی نواز فوج نے ترکی پر قبضہ کر لیا اتفاق سے میں ایک روز اتاترک بین الاقوامی ہوائی اڈے سے ترکی پہنچا دوسرے دن یہ معاملہ ہوا، میں نے اپنی آنکھوں سے عوام کا جم غفیر دیکھا۔ 

رجب طیب نے ایک ٹیلی ویژن پر اپنا پیغام چھوڑا پھر دیکھتے ہی دیکھتے ترکی کی غیور وطن پرست عوام سڑکوں پر آ گئے۔ یہ حقیقت ہے پوری دنیا نے یہ منظر بذریعہ ٹیلی ویژن دیکھا جب ایک طرف فوج تھی اور دوسری طرف پولیس اور ہاتھوں میں ڈنڈے اور پتھر لیے ترکی کی معصوم بہادر عوام جو فوجی ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے یہ منظر میں نے دیکھا اور چند گھنٹوں کے اندر فوج سے قبضہ واپس لے لیا گیا۔ اس بغاوت میں سیکڑوں فوجیوں کو پولیس نے گرفتار کیا ان سب کو سخت سزائیں دی گئیں۔ اس بغاوت کو انجام دینے والے امریکن سی آئی اے کا ایجنٹ جو ترکی میں رہائش پذیر تھا اسے سزائے موت سنا دی گئی۔ امریکا نے اپنے اس ایجنٹ کو چھڑوانے کے لیے ترکی کے اسٹیل اور دیگر اشیا پر مزید ٹیکس لگا دیا۔ ترکی کی معیشت کمزور ہونے لگی لیکن اس بار بھی ترکی کے غیور عوام نے ملک کا ساتھ دیا۔

ڈالر فروخت کر کے ملک کی کرنسی خریدی امریکا سے آنے والے دسیوں اقسام کے پھل و دیگر ساز و سامان پر ترکی نے پابندی لگا دی۔ اس موقع پر ترکی کا قطر نے بڑا ساتھ دیا جس سے ترکی کی لڑکھڑاتی معیشت کو سہارا ملا اور ترکی اپنے پیروں پر دوبارہ سے کھڑا ہو گیا۔ چند ماہ قبل ترکی نے روس سے ایئر ڈیفنس ڈیل کی تو امریکا نے ترکی کو دھمکیاں دیں مگر مرد مجاہد رجب طیب نے اس بار بھی اپنی بات پر قائم رہنے کا حتمی فیصلہ کیا۔ رجب طیب نے امریکا کو بتا دیا کہ ہم تمہارے ’’باپ‘‘ کے نوکر نہیں۔ جب سے صدر رجب طیب برسر اقتدار ہوئے ملک وہ پہلے والا ترکی نہیں رہا۔ رجب طیب اپنی قوم کے آگے سرخرو ہوئے ہیں عوام انھیں محبت، چاہت ، الفت سے نوازتی ہے۔ یہ روز و شب اپنے ملک و قوم کی ترقی کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ ان کا اسلام سے والہانہ لگاؤ ہے۔ رجب طیب نے اپنے دور حکومت میں آئی ایم ایف کا 30.5 ارب ڈالر کا ملکی قرضہ صفر کر کے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کو قرضہ دینے کی پیشکش کر دی۔

ملکی تعلیمی نظام کو اسلامی بنانے کے لیے اصلاحات کیں اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جن اسکولوں میں طلبا کی تعداد 65 ہزار تھی وہ 8 لاکھ سے زیادہ تجاوز کر گئی۔ ملک کی جامعات کی تعداد 98 سے بڑھ کر 190 کر دیں۔ 12 سال سے قبل قرآن پڑھنے پر پابندی ختم کی اور تمام اسکولوں میں قرآن و دین کی تعلیم لازمی قرار پائی۔ صرف ایک سال میں 17000 نئی مساجد کی تعمیر اور پرانی مساجد کھول دی گئیں ان کی مرمت ہوئی۔ ترکش قوم کے لیے سبز کارڈ کا اجرا کیا جس کے تحت کسی بھی ترک باشندے کو ملک کے کسی بھی اسپتال میں مفت علاج کی سہولت حاصل ہو گئی۔ خواتین کے لیے پردے کے ساتھ ڈیوٹی کی اجازت دے دی گئی، ایک خاتون جج نے 2015 میں اسکارف پہن کر مقدمہ سنا تو اہل یورپ کے لیے یہ بریکنگ نیوز بن گئی۔ 

سنہ 2002 میں ترکی کے زرمبادلہ کے ذخائر 26.5 بلین ڈالر تھے جو 2014 میں 150 بلین ڈالر تک پہنچ چکے تھے۔ موجودہ زرمبادلہ پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ ترکی میں صرف 12 سال میں ہوائی اڈوں کی تعداد 26 سے بڑھ کر 50 ہو گئی۔ ترکی کی صرف سیاحت سے حاصل ہونے والی سالانہ آمدن 20 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ گزشتہ دس سال میں 2002 سے 2011 ، 13500 کلو میٹر طویل راستے پر تیز رفتار ریل چلنے لگی۔ سیکڑوں کلومیٹر کی مرمت ہوئی۔ تعلیمی بجٹ 17.50 سے بڑھ کر 34 لیرا ہو گیا ہے۔ پانی، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ختم کی اور بلوں میں نمایاں کمی کی اور بھی بہت اصلاحات کی گئی ہیں۔

ایم قادر خان  

بشکریہ ایکسپریس نیوز



Viewing all articles
Browse latest Browse all 4736

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>