امريکی صدر کی جانب سے سخت پابنديوں کی دھمکی کے بعد رواں ہفتے کے آغاز پر ترک ليرا کی قدر ميں 0.6 فيصد کی کمی ديکھی گئی ہے۔ تاہم ماہرين اس بارے ميں شکوک و شبہات رکھتے ہيں کہ آيا امريکا واقعی ايسا کوئی قدم اٹھائے گا۔ ترکی نے گزشتہ ہفتے شمال مشرقی شام ميں کردوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع کی تھی۔ اس دوران عالمی سطح پر ترکی کی مذمت جاری ہے۔ امريکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انقرہ حکومت کے خلاف سخت پابنديوں کے نفاذ کی دھمکی دی جبکہ يورپی يونين ميں بھی ترکی کو ہتھياروں کی فروخت پر وسيع تر پابندی زير غور ہے۔
البتہ کاروباری حلقے امريکی صدر کی جانب سے ترک اقتصاديات کو 'تباہ کر ڈالنے‘ کی دھمکی کو زيادہ سنجيدہ نہيں لے رہے۔ حال ہی ميں پايہ تکميل تک پہنچنے والی روسی S-400 طرز کے ميزائل دفاعی نظام کی خريداری اور فراہمی کے وقت بھی امريکا نے ايسی ہی دھمکياں دی تھيں تاہم کوئی عملی قدم نہيں اٹھايا گيا۔ يہی وجہ ہے کہ تجارتی و کاروباری حلقے اس بار بھی کسی عملی قدم کے بارے ميں زيادہ فکرمند نہيں۔ 'بلو بے ايسٹ مينیجنمنٹ‘ سے وابستہ ٹم ايش کا کہنا ہے کہ روسی S-400 ميزائل دفاعی نظام کی ڈيل کے وقت کافی باتيں ہوئیں ليکن کچھ نہ ہوا۔
اس ہی ليے منڈيوں ميں يہ تاثر پايا جاتا ہے کہ ٹرمپ، ترکی کے خلاف حقيقی و با معنی پابندياں عائد کرنے کی جرات نہيں کر سکتے۔ امريکی سيکرٹری خزانہ اسٹيون منوچن نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ نے ترکی کے خلاف انتہائی سخت پابنديوں کی منظوری دے دی ہے۔ اس پر انقرہ حکومت نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ پابنديوں کا جواب پابنديوں سے ديا جائے گا۔ پھر ٹرمپ نے بيان ديا کہ پابنديوں پر اراکين کانگريس کی مشاورت سے کام جاری ہے۔