قومی ادارے قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں جو ملک کو اقتصادی و معاشی جلا بخشنے میں بنیادی کردار ادا کر تے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے وہ ادارے جو کسی دور میں پاکستان کی معیشت کے ماتھے کا جھومر تھے، ہمارے کچھ حکمرانوں اور افسر شاہی کے ذاتی مفادات کی نذر ہو گئے۔ اس لئے تحریک انصاف کی قیادت اُن سرکاری اداروں کی نجکاری کا عزم لے کر بر سرِاقتدار آئی جو برسوں سے خسارے میں تھے اور اب حکومت نے 46 ایسے پبلک سیکٹر اداروں کی نجکاری کی فہرست تیار کر لی ہے۔ وفاقی وزیر نجکاری محمد میاں سومرو نے کہا ہے کہ اس فہرست کو وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ، ریونیو عبدالحفیظ شیخ جو کہ پہلے وفاقی وزیر نجکاری رہ چکے ہیں، کے ساتھ بھی شیئر کیا گیا ہے۔
محمد میاں سومرو ملک کے پہلے وزیر نجکاری ہونگے جو زبانی نہیں عملی طور پر 46 پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کی ٹرانسپیرنٹ پرائیویٹائزیشن کریں گے۔ اُنہوں نے پرائیویٹائزیشن پروگرام میں شامل 17 پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کو بھی خارج کر دیا ہے۔ خسارے میں چلنے والے اداروں کی نجکاری سے ملکی خزانے پر پڑا بوجھ کسی حد تک کم ہو گا اور ملکی معیشت میں بھی بہتری آئے گی تاہم قومی اداروں کی نجکاری سے مزدور طبقے میں شدید بے چینی پیدا ہو گئی ہے کیونکہ نجکاری کے بعد ان اداروں کو خریدنے والے سرمایہ کاروں کا پہلا اقدام مزدوروں کی چھانٹی ہوتا ہے جس کا مطلب بیروزگاری میں اضافہ ہے۔
ماضی میں نجکاری کے حوالے سے جتنے بڑے پیمانے پر لوٹ مار ہوئی ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ دوسری طرف معیشت میں بہتری آنے سے ان کمپنیوں کے حصص کی مالیت بھی بڑھنے کا امکان ہے، اس لئے حکومت کو حالات میں بہتری کے بعد درست وقت میں نجکاری کا فیصلہ کرنا چاہئے اور اس عمل کو شفاف اور موثر انداز میں مکمل کیا جانا چاہئے تاکہ قومی دولت مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھوں میں رہنے کے بجائے معاشرے کے غریب عوام میں بھی گردش کرے اور ملک میں روز گار کے بہتر مواقع میسر آسکیں۔