انٹرا بینک میں ڈالر چار روپے سے زائد کے اضافے کے بعد ملکی تاریخ کی ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچ گیا، اگر یہی حال رہا تو صورتحال ہاتھ سے نکل جانے کا خدشہ ہے۔ یہ کیفیت اس قدر نازک ہے کہ اگر اس سے فوری طور پر نہ نمٹا گیا تو غیر ملکی قرضوں کی مالیت جو ایک سال میں 28 ہزار ارب روپے سے بڑھ کر 35 ہزار ارب روپے تک پہنچ چکی ہے، کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ اقتصادی ماہرین پہلے ہی موجودہ صورتحال کو دیوالیہ پن کی علامت قرار دے چکے ہیں. تاہم ماضی میں بہت سے ممالک ایسے حالات سے دوچار ہوئے ہیں جن میں سے اکثر اپنی پالیسیوں کو ازسر نو ترتیب دے کر اپنی اقتصادیات کو منظم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں.
بلکہ آج دنیا کے خوشحال ترین اور قرضے دینے والے ملکوں میں شمار ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت بھی گزشتہ آٹھ دس ماہ کے دوران کیے گئے اقدامات خصوصاً حالیہ بجٹ کو دیوالیہ پن کی کیفیت سے نکلنے میں دور رس نتائج کا حامل قرار دے رہی ہے لیکن سردست ڈالر، سونا، بجلی، پٹرول و گیس کی قیمتوں کے مسلسل اوپر جانے سے دوسرے نقصانات کے علاوہ درآمدات پر اثر پڑ سکتا ہے اور ملک دشمن عناصر کی جانب سے بحرانی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ اسٹیٹ بینک کو کرنسی مارکیٹ کی موجودہ کیفیت کا فوری نوٹس لینا چاہئے، اس کے علاوہ ترسیلاتِ زر میں فوری اضافہ ناگزیر ہو چکا ہے جس کیلئے سمندر پار پاکستانیوں کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔